محترم قارئین! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص(روزہ) میں جھوٹی باتیں اور برے کام نہ چھوڑے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑ دینے کی کوئی پرواہ نہیں۔(مشکوة المصابیح جلد نمبر3کہ آب الصوم) مقصد یہ ہے کہ روزہ میں بھوکا اور پیاسا رہنا ہی کافی نہیں ہے۔ اور احترام بھی ضروری ہے مرات المنا جیج شرح مشکوة میں ہے کہ یہاں ”جھوٹی بات سے مراد ناجائز گفتگو ہے جھوٹ، بہتان، غیبت، تہمت، گالی، لعن، طعن وغیرہ جن سے بچنا فرض ہے اور برُے کام سے مراد ہر ناجائز کام ہے۔ آنکھ کان کا ہو یا ہاتھ پائوں وغیرہ کا اگرچہ میرے کام ہر حالت اور ہمیشہ ہی برُے ہیں۔ مگر روزے کی حالت میں زیادہ برُے کہ ان کے کرنے میں روزے کی بے حرمتی اور ماہ رمضان کی بے ادبی ہوتی ہے، اس لئے خصوصیت سے روزے کا ذکر فرمایا ہر جگہ گناہ کا عذاب ایک مگر مکہ مکرمہ میں ایک گناہ کا عذاب ایک لاکھ ہے۔ کیوں؟ اس زمین پاک کی ہے ادبی کی وجہ سے ” حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھا نے ایک حدیث نقل کی جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ”جس شخص نے بغیر کسی شرعی مجبوری کے رمضان کا ایک روزہ ترک کیا وہ نو لاکھ برس جھند میں جلتا رہے گا۔ اللہ اکبر الامان والحفیظ
جو لوگ رمضان شریف میں کھلے عام کھاتے پیتے ہیں وہ شعار اسلامی کی توہین کرتے ہیں اور دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر ماہ رمضان میں بغیر عذر شرعی کے کھاتے ہیں تو حکومت اسلامیہ پر فرض ہے۔ کہ انہیں قتل کر دے یا عمر قید کی سزا دے در مختار میں ہے اور اگر کوئی تکلف مسلمان جان بوجھ کرے رمضان کے دنوں میں سرعام کھائے تو اسے قتل کردیا جائے۔ یہ سزا حکومت اسلامیہ میں قاضی کی جانب سے جاری ہوتی ہے جہاں اسلامی حکومت نہیں وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے لوگوں سے اسلامی قطع تعلق رکھے رہیں جب تک وہ سچے دل سے توبہ کرے۔ تاکہ عمل کرنے والے لوگ اس کے ساتھ وبال وعذاب میں مبتلا نہ ہوں۔ شہر بخارا میں ایک مجوسی رہتا تھا(آگ کی پوچا کرنے والا) ایک مرتبہ رمضان شریف میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مسلمانوں کے بازار سے گزر رہا تھا۔ اس کے بیٹے نے کوئی چیز اعلانیہ طور پر کھانا شروع کردی۔ مجوسی نے جب یہ دیکھا تو اپنے بیٹے کو ایک طمانچہ رسید کردیا اور خوب ڈانٹ کر کہا تمہیں رمضان المبارک کے مہینہ میں مسلمانوں کے بازار میں کھاتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ بیٹے نے جواب دیا ابا جان آپ بھی تو رمضان میں کھاتے ہیں والد نے جواب دیا کہ ہاں میں بھی کھاتا ہوں مگر چھپ کر گھر میں کھاتا ہوں مسلمانوں کے سامنے نہیں کھاتا۔ اور اس ماہ مبارک کے بے حرمتی نہیں کرتا۔ کچھ عرصے بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا۔ کسی نے خواب میں اسے جنت میں ٹہلتے ہوئے دیکھا تو اسے بڑا تعجب ہوا پوچھا کہ تو تو مجوسی تھا جنت میں کیسے آگیا؟ کہنے لگا: ”واقعی میں مجوسی تھا مگر جب موت کا وقت قریب آیا تو اللہ عزوجل نے احترام رمضان کی برکت سے مجھے ایمان کی دولت سے اور مرنے کے بعد جنت سے سرفراز فرمایا
الحمُدللہ! ہم مسلمان ہیں جب ایک آگ کو پوجنے والے کو احترام رمضان کا صلہ مل رہا ہے اور صلہ بھی کیسا؟ ایمان کی دولت اور جنت میں داخلہ۔ اور ہم تو نہیں ہی مسلمان اگر ہم رمضان کی توہین کرنے سے باز رہ کر رمضان المبارک کا احترام بجا لائیں تو کیونکہ نہ ہمیں بھی یہ دو سعادتیں ملیں گی؟ ضرور ملیں گی اور مزید اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا نزول بھی ہوگا۔
حدیث پاک میں ہے کہ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ سیدنا جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے کہ جوان بہشت کو زینت کا حکم دو اور….کر دو کے اے اہل آسمان اور اہل زمین! ہوشیار ہوجائو کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جو شخص اس کی تعظیم کرے گا۔ بخشا جائے گا۔ اور شیطان کو قید کر دو تاکہ روزہ دار گناہ کرنے سے محفوظ رہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان میں بغیر شرعی اجازت اور بغیر بیماری ایک دن کا روزہ نہ رکھے گا تو اگرچہ پھر عمر بھر روزہ رکھے۔ اس کی قضا نہ کریگا۔ مراة المناجیح شرح مشکوة المصابیح میں اس حدیث کی تشریح میں فرمایا ہے بلاوجہ رمضان میں ایک روزہ چھوڑنے والا اس کے عوض عمر بھر روزے رکھے تو وہ، وہ درجہ اور ثواب نہ پائے گا۔ جو رمضان میں رکھنے سے پاتا۔ اگرچہ ایک روزے سے اس کی قضا ہوجائے گی۔ مگر ادائے فرض کچھ اور ہے اور درجہ وثواب حاصل کرنا کچھ اور صوفیائے کرام علیھ الرحمة فرماتے ہیں کہ جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت سے افضل ہے کہ عبادت کا اصل وقت جوانی ہے کسی نے بلا عذر شرعی رمضان المبارک کا ادا روزہ جس کی نیت رات سے کی تھی۔ بالقصد کسی غذا یا دوایا نفع رساں شے سے توڑ ڈالا اور شام تک کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہوا جس کے باعث آج روزہ رکھنا ضرور نہ ہوتا تو اس جرم کے جرمانہ میں ساٹھ روزے پے درپے(یعنی لگاتار) رکھنے ہوتے ہیں۔ بس حضور اعلیٰ حضرت، حضور محدث اعظم پاکستان، حضور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم کے افکار عالیہ سے آداب اور تعظیم کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ جس کے قاسم حضور قائد ملت اسلامیہ، صاحبزادہ، قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی دامت برکا العالیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے