فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
15

فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! خلیفہ، ثانی! امیر المومنین، امام المتقین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی مطھرہ کے تین نمایاں ادوار ہیں(1) دور جاہلیت(2)دور اسلام(3)دور خلافت آپ رضی اللہ عنہ ہر دور میں معاشرے کے اندر نمایاں رہے۔ زمانہ کفر میں اہل کفر کو آپ کی طاقت اور جرات پر بڑا ناز تھا۔ اور زمانہ اسلام میں اہل اسلام کو آپ کی طاقت اور جرات پر فخر تھا۔ دور خلافت تو آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا گزارا کہ اہل اسلام کو آج تک آپ کے کارناموں پر فخر ہے اور قیامت تک رہے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بجز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہم ایک شخص کو بھی نہیں بتا سکتے کہ اس نے علی الاعلان ہجرت کی ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس شان سے ہجرت کی کہ ہتھیار پہن کر لونڈھے پر کمان لٹکائے اور ہاتھ میں چند تیر لئے کعبہ میں داخل ہوئے۔ طواف کعبہ کیا، مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی۔اس کے بعد اشراف قریش کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں۔ جو شخص اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ میرا راستہ روک کر مقابلہ کے لئے تیار ہوجائے مگر کسی کا کافر کو تاب وطاقت نہیں ہوئی کہ آپ کا راستہ روکتا یا آپ کا مقابلہ کرتا اور آپ علانیہ بیس افراد کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ بار گاہ نبوت میں حاضر ہو کر مہاجرین اولین کے معزز لقب سے سرفراز ہوگئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر حمایت ونصرت کا ایسا ریکارڈ قائم کردیا جو تاریخ اسلام میں یقیناً ایک بہت ہی ممتاز شاہکار ہے۔ تمام مئورخین اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یکم ہجری سے لے کر حضورۖ کے وصال باکمال تک جنتی لڑایاں پیش آئیں۔ غیر مسلموں سے جو معاہدات ہوئے اور اشاعت اسلام کے لئے وقتاً فوقتاً جتنی تدبیریں اور انتظامات کئے گئے اس میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو۔ سفروحضر، صلح وجنگ ہر جگہ ہر حال میں بارگاہ نبوت کے خاص الخاص رفیق ومعین رہے۔ اور تن، من، دھن کے ساتھ خدمت دین ونصرت اسلام کے لئے کمربستہ رہے۔ چنانچہ آپ23جمادی الاخریٰ13سنہ کو مسند خلافت پر جلوہ گر ہوئے۔ آپ کے دور خلافت میں بڑی بڑی اسلامی فتوحات حاصل ہوئیں۔14سنہ میں دمشق، حمص، بولبک، بصرہ اور ایلہ فتح ہوئے۔ اور اس سال آپ نے لوگوں کو تراویح کی نماز کے لئے جمع فرمایا۔15سنہ میں اردن اور طبریہ فتح ہوئے اور اسی سال جنگ ہرموک اور قادسیہ کا معرکہ پیش آیا۔ اور اسی سال آپ کے حکم سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کوفہ شہر کو آباد کیا۔ اور اسی سال آپ نے مجاہدین کی تنخواہیں مقرر کیں۔اور جاگیریں عطا فرمائیں۔14سنہ میں اہواز اور مدائن فتح ہوئے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسریٰ کے محل میں جمعہ پڑھا۔ اسی سال قنسرین حلب، تکریت وغیرہ بھی فتح ہوئے۔ اور اسی سال جب آپ خود تشریف لے گئے تو بیت المقدس بھی فتح ہوگیا۔اسی سال آپ نے سن ہجری مقررفرمائی۔17سنہ میں آپ نے مسجد نبوی شریف کو وسیع فرمایا۔ اور اسی سال حجاز کا وہ مشہور قحط پڑا جو تاریخ عرب میں دو عام الرماد۔” کے نام سے مشہور ہوا۔23سنہ ھ ذی الحجہ تک لشکر کشیوں اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔23سنہ ھ کے آخر میں یا محرم الحرام 24سنہ ھ کے پہلے دن آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت دس سال چار ماہ اور چھ دن پر محیط ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انصاف کی ایسی مثالیں قائم فرمائیں جو آج تک حزب المثل ہیں۔ اور قیامت تک رہیں گی۔
جب بدبخت زمانہ ابو لوئو فیروز مجوسی نے آپ پر حملہ کیا تو ہوش آنے پر آپ نے فرمایا: بتائو؟ میرا قاتل کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ابولولئو فیروز مجوسی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ الحمد اللہ! کسی مسلمان کا دامن میرے خون سے داغدار نہیں ہوا اور ایک کافر کے ہاتھ مجھے شہادت ملی پھر آپ نے اپنے فرزند عبداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بیٹا جلدی سے حساب کرکے مجھے بتائو کہ مجھ پر کتنا قرض ہے؟ انہوں نے حساب کرکے تقریباً چھیاسی ہزار درہم بتایا۔ تو آپ نے فرمایا کہ نور نظر! اگر یہ قرض میری جائیداد سے ادا ہو سکے تو میری جائیداد فروخت کرکے میرا قرض ادا کردینا۔ ورنہ میرے خاندان بنوعدی سے مدد طلب کرنا اور اگر پھر بھی قرض ادا نہ ہوسکے تو قریش سے امداد کی درخواست کرنا اور خبردار! قریش کے علاوہ کسی دوسرے قبیلے سے میرے قرض کی ادائیگی کے لئے کچھ ہرگز نہ طلب کرنا پھر فرمایا بیٹا! میرے دفن کے لئے پہلوئے مصطفیٰۖ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے اجازت لے لینا۔ اجازت کے بعد آپ کو روضہ انور کے احاطہ میں نبی پاکۖ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے۔ آمین۔28ذوالحجہ کو آپ رضی اللہ عنہ کے عاشق صادق حضور محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کے داماد، صاحبزادہ محمد معین الدین رضوی زید شرفتہ کے والد گرامی فقیہ زماں مفتی، اعظم علامہ حکیم حافظ نواب الدین رضوی علیہ الرحمة کا وصال ہوا۔ اسی مناسبت سے ہر سال آپ کا عرس پاک 27ذوالحجہ کو منایا جاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی عرس پاک 27ذوالحجہ بروز جمعرات ہوگا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here