”رشک قمر”

0
37
عامر بیگ

سفر نامہ اور آپ بیتی کے بیچوں و بیچ تاریخ مرتب کر دینا بشیر قمر کا ہی طرہ امتیاز ہے ان کی تحریریں ،وی لاگز اور سفری ویڈیوز گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں، پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا کی طرف لے جانا عہد حاضر کا تقاضا ہے جس پر بشیر قمر کما حقہ پورا اتر رہے ہیں جتنا مواد مہیا کیا گیا اس میں کتاب پر مضمون لکھنے کا حق ادا تو نہیں ہو سکتا تھا مگر فرض کی ادائیگی بھی ضروری ہے لہٰذا عرض ہے کہ بشیر قمر سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اپنی ایک پہچان بنا چکے ہیں ،سماجی و کاروباری جھمیلوں کیساتھ ادب، صحافت اور سیاحت کو نبھانا اور سفرنامہ لکھنا کارِمشکل ہے مگر اس میں بھی وہ اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں نگری نگری پھرنے والے بشیر قمر نے اپنی اس کاوش میں انڈیا، بھارت اور ہندوستان کا فرق بھی سمجھا دیا ہے، انہوں نے اجمیر شریف جے پور اور آگرہ میں مغلیہ دور کی عظیم الشان تاریخی عمارتوں(جو کہ اب بین الاقوامی ثقافتی ورثہ کی ملکیت ہیں )پر بھی خامہ فرسائی کی ہے چونکہ وہ خود اہل زبان ہیں اس لیے زبان و ادب کے اعتبار سے بھی کوئی کسر نہیں رکھی، جہاں جہاں ضروری سمجھا تاریخ اور تاریخی حیثیت کو پیرائے میں لانے کے لیے موقع پر موجود لیٹریچر اور اپنی بھرپور یادداشت کا موزوں استعمال کیا، آگرہ قلعہ میں لکھتے ہیں کہ اکبر ہی کے دور میں شہزادہ سلیم کے لیے جہانگیر کا حوض بنوایا گیا تھا جسے پتھر کا ٹینک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل نہانے کا ٹب تھا، جو اب باہر صحن میں لوہے کا جنگلہ لگا کر رکھ دیا گیا ہے، ٹب کی اونچائی پانچ فٹ، قطر آٹھ فٹ اور نہانے کا رقبہ پچیس فٹ ہے۔ بیچ میں دو پائیدان بھی ہیں یہ ایک قسم کا سوئمنگ پول تھا۔ اس پر آج بھی فارسی میں ایک تحریر موجود ہے جو اسکی تاریخ بتاتی ہے اس کے مطابق اس پر حوضہ جہانگیر درج ہے بشیر قمر کی تحریر میں جس قدر انہماک اور تفصیل درج ہے اس سے ان کے ذوق و شوق اور عمدہ نثر نگاری کی غمازی ہوتی ہے۔ اگر انڈیامیں ایک وزٹ میں تین شہروں سے زائد دیکھنے کی گنجائش ہوتی آپ کو مزید معلومات بھی بہم پہنچا دیتے ابھی تو اسی پر اکتفا فرمائیے ۔بعض تاریخ دانوں کی قیاس آرائی ہے کہ انسانی تاریخ کا سراغ پانچ ہزار سال سے کچھ ہی اوپر ہے سفرناموں اور تاریخ سے عوام الناس کی ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہے اسی سے ہی پتا چلتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں گفتار قمر میں تاریخ، تاریخی مقامات اور انکی اہمیت بارے آنکھوں دیکھا سلیس زبان میں بیان کر دیا گیا ہے جس سے پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہتی ہے انکی پہلی کتاب عکس قمر کے بعد ایک اور اچھی کتاب پیش کرنے پر میں بشیر قمر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امیدِ واثق ہے کہ عام قاری، تاریخ کے طالب علم اور سفر نامے پڑھنے والے اس سے استفادہ فرمائیں گے۔ گفتار قمر کے بعد کی آنے والی کتاب رشک قمر کی بھی پیشگی مبارکباد!
(تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here