PTIکا بھی پارلیمنٹرین گروپ بن گیا! !!

0
168
پیر مکرم الحق

73سالہ اہم ترین تحریک انصاف کے رہنما پرویز خٹک نے بھی71سالہ پارٹی سربراہ کا ساتھ چھوڑ کر پارلیمنٹیرین گروپ بنا دیا۔ جس میں تحریک انصاف کے ہیڈکوارٹر یعنیPKPپختونخواہ کے ستاون پارلیمنٹیرین بھی پرویز خٹک کے ساتھ عمران خان کو داغ مغفرت دیگئی باقی اگر آخری آدمی جو عمران خان کے ساتھ رہ گیا ہے وہ ہے مراد سعید جسکو اگر180نہیں تو تقریباً سو سے زیادہ مقدمات کا سامنا ہے۔ عمران خان کو تو پھر بھی انکے بچوں کا ماموں ان سارے مقدمات میں سے دے دلا کر نکال لے گا لیکن مراد سعید کو تو پھر ایک ہی سوال پوچھیں گے کہ”تیرا کیا بنے گا کالیہ؟” حالانکہ مراد سعید تو گورا چٹا اور خوبصورت نوجوان ہے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے عمران خان سے تعلق جوڑا جو اب انکے گلے پڑ گیا۔ تحریک انصاف کو انکا سربراہ اپنی ہٹ دھرمی اور تکبر کی وجہ سے اپنے ہی ہاتھوں ڈبو گیا۔ اگر زرا تدبر اور صبر وبرداشت کی سہارا لیتے تو آج بھی ان رہتے لیکن انکی اسمبلیاں توڑنے اور استعفیٰ کی سیاست ہی انہیں لے ڈوبی پرویز خٹک کا طویل تجربہ اور لوگوں کے دلوں میں انکا مقام کم ازکم پی کے پیPKPکی حد تک تو روز اول سے روشن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پرویز خٹک تحریک انصاف کی ریڑھ کی ہڈی تھی تو غلط نہیں ہوگا انہوں نے ”خطرناک” کے راستے کو روکنے کی بڑی کوشش کی وہ سیاست کے جہاندیدہ آدمی ہونے کے باوجود انہیں عمران خان کے غلط فیصلوں اور حکمت عملی کی وجہ سے بند دروازے کے باہر لا کھڑا کیا ہے۔ نوبت عمران خان کی اپنے تو عقل قل سمجھنے کی غلط فہمی، جبکہ اگر تحریک انصاف کی ناکامی اور تباہی کی بات کی جائے تو عمران کا اپنی ٹیم کو اعتماد میں نہ لیکر چلنا اس کی تباہی کی بڑی وجہ بن گئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے پارلیمنٹرین کے لفظ کا پاکستانی سیاست میں دوبارہ سامنے آنے پرانے زخموں کی نمک پاشی کے برابر ہے۔پی پی پی کے کارکنوں کیلئے ایک بیوفائی اور غداری کی ایک بدترین مثال ہے یہ لفظ، لیکن فرق یہ ہے کہ اس پارلیمنٹرین بنانے کیلئے ایک آمر جنرل مشرف مرحوم نے خود کوشش کرکے پی پی پی کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تمام تر کاوشوں کے بعد بھی پی پی پی مضبوط رہی فیصل صالح حیات جیسے بڑے پیر اور گدی نشین کو واپس آنے کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس لئے کہ بھٹو کی پی پی پی کی جڑیں عوام میں گھری تھیں اور اب بھی دلوں میں پیوستہ ہیں۔ خان کی پارٹی سوشل میڈیا کی پارٹی ہے جس نے عوام کیل ئے کچھ بھی نہیں کیا اسلئے جتنی قلیل مدت میں تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پیپلزپارٹی کے قائدین اور کارکنان نے جیلیں جھلیں، کوڑے برداشت کئے اور پھانسی گھاٹ میں رات کے اندھیرے میں پھدذوں پر جھول گئے لیکن آخر وقت تک انکے اندر کوئی خوف یا گھبراہٹ نہیں تھی۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے وہ لوگ افسانوں اور کہانیوں کے کردار بن گئے۔ انکی اپنی زندگی کا دیا تو بجھا دیا گیا لیکن جس ہمت اور عزم سے وہ پھانسی کے پھندے تک چل کر گئے اس نے پارٹی میں ایک نئی روشنی اور عزم پیدا کیا کیوں کہ پارٹی کے سربراہ نے اپنے پر ہونے والے مظالم کو ہمت اور بہادری سے برداشت کرکے کارکنوں کیلئے مثال چھوڑی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو جتنا وقت بھی برسراقتدار رہے ہر دن انہوں نے ملک وقوم کیلئے کچھ نہ کچھ کیا اور ایسے بے مثال کارنامے کئے کہ ان سے پہلے نہ انکے بعد کوئی کر پایا۔ بھٹو کی تقدیر پر اثر تھیں کیونکہ انکے دل میں غریبوں کا درد تھا احساس تھا عوام نے بھٹو کے پیار اور قربانیوں کا جواب بھی اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر کیا۔ سات جیالوں نے تو راولپنڈی میں خود سوزی کرکے موت جو درد ناک تھی اسے گلے لگایا عمران خان نے تو اپن بنی گالہ والا غیر قانونی گھر تو کراچی لاہور میں لوگوں کی جھگیا غیر قانونی ریگلیولرائز کروا دیا۔ قرار دلوا کر مسمار کروا دیں وہ دن مجھے یاد ہے کہ جب کیماڑی کی ایک بوڑھی خاتون نے جھولی اٹھا کر عمران خان کو بددعائیں دی تھیں۔ بھٹو کو غریبوں مزدوروں اور کسانوں نے جھولیاں اٹھا کر دعائیں دی تھیں جن کو گھروں کی چھتیں اور چار دیواریں دی گئی تھیں۔ آپ کے الفاظ کوئی قیمت نہیں رکھتے آپکے کام آپکی حکومت کے اصلاحات کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری ہی کسی جماعت کسی رہنما کی سیاست کا معراج ہے ورنہ مصریوں سے زیادہ اچھے خطبہ اور خطابات کوئی نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی ملک کی 76سالہ تاریخ میں کبھی کسی مذہبی جماعت برسراقتدار نہیں آسکی۔ اسلئے کہ لوگوں کو انکے قول اور فعل میں تضادات نظر آتے ہیں ایک ادنیٰ سیاست کے طالبعلم کی حیثیت سے پاکستانی تاریخ کی دوسری پارلیمنٹرین دھڑے کا سن کر افسوس ہوا کرا سکے پیچھے بھی طاقتور حلقوں کے سیاسی انجینئرنگ کی جھلک صاف طور نظر آرہی ہے۔ افواج پاکستان نے تو سیاست سے کسی حد تک اپنے کو علیحدہ کردیا تھا لیکن عمران خان کے بار بار کے اسراسر پر بھر ہوسکتا ہے کہ جنہیں گالیاں دیں جارہی تھیں انہوں نے سوچا کہ چلو ایک جاتے جاتے خان صاحب کو ایک تحفہ دے ہی ہیں تو پھر عوام کے بیحد اسرار پر پارلیمنٹرین کا تحفہ خان کو رومال میں لپیٹ کر دیدیا کہ وہ انہیںParting سمجھ کر قبول کرلیں کیونکہ کوئی وقت تھا کہ خان اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا سوہنا منڈا تھا جسکے مراد سعید انکا تھا!۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here