پاکستان میں ہر سیاسی رہنما آئین کی پاسداری پر بات کرتا نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم ، صدرمملکت،آرمی چیف ،چیف جسٹس ،وفاقی وزرا،ممبران اسمبلی ،ججز، بیوروکریٹس، نیب ، پولیس اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے آئین کے تقدس کی بات کرتے ہیں۔ مگر اسی آئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں، آئینی اور مذہبی پھکی ہر روز نئے نئے طریقوں سے بیچی جاتی ہے۔ان سیاسی رہنمائوں کے روز مرہ کے بیانات کو دیکھا جائے تو انکا گھنائونا چہرہ ،انکے کرتوت صاف نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم سے لیکر ممبران اسمبلی تک ۔سبھی جھوٹ بولتے اور حقائق کے برعکس بات کرتے نظر آئینگے۔پارلیمنٹ کی بلڈنگ پر کلمہ طیبہ لکھا ہے۔ جس کے نیچے سے گزر کر سبھی ممبران اسمبلی داخل ہوتے ہیں۔ اسمبلی کے فلور پر جھوٹ، فریب اور عوام دشمن فیصلے کئے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے باہر ترازو دیکھ کر آپ محسوس کرینگے کہ جیسے کسی خلیفہ کے دور میں آ پہنچے ہیں جہاں امیر غریب کو بروقت انصاف مہیا کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں فیصلے طاقتور اور مالدار کے حق میں صادر کئے جاتے ہیں۔ پولیس سٹیشن میں داخل ہوں تو فرض شناسی،عوامی خدمت پر آیات قرآنی آویزاں ملیں گی ۔ لیکن آپ جائز کام کے لئے اندر داخل ہوں تو آپ محسوس کرینگے کہ قانون پیسے والے کی باندی ہے۔ کمزور اور غریب کا قانون پر نہ کوئی حق ہے اور نہ ہی دسترس۔پولیس اسٹیشن میں آپ کو ایسے ٹریٹ کیا جائے گا جیسے درندوں کی بستی میں آئے ہیں جہاں آپکو چیر پھاڑ کر کھایا جائے گا۔طاقتور اور مالدار کے خلاف رپورٹ درج کروانا تو درکنار ۔آپکے خلاف ہی جھوٹا مقدمہ قائم کردیا جائے گا۔ سیاسی لیڈر اور جرنیل کہتے ہیں۔ ملک میرا ہے لیکن کاروبار اور جزیرے ملک سے باہر۔ ملک میرا ہے بچوں کی رہائش ،تعلیم اور پلازے ملک سے باہر ۔ ملک نہ تمہارا ہے اور نہ ہی تمہارے باپ کا ۔ یہ ملک ان پندرہ کروڑ ووٹرز اور مظلوم عوام کا ہے جو اس کرپٹ نظام کو ووٹ نہیں کرتے۔ صرف پانچ کروڑ عوام ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں ۔ جہاں ووٹ خریدا جاتا ہے۔ برداری کی بنیاد پر ڈالا جاتا ہے۔ لسانیت یا مذہبی منافرت کی بنیاد پر دیا جاتاہے۔ محکوم اور پسہ ہوا طبقہ غلیظ انتخابی سیاست سے متنفر ہے۔ سیاسی اکابرین ایک دوسرے کے خلاف انتہائی گھٹیا،غلیظ اور ناشائستہ گفتگو کرتے ہیں۔ جس سے انکا اخلاقی لیول معلوم ہوتا ہے۔ رانا ثنااللہ جیسا غلیظ شخص وزیر داخلہ ہو۔بلاول جیسا وزیر خارجہ ،فضل الرحمن جیسا بدتہذیب،شرجیل میمن جیسا کرپٹ پیپلز پارٹی کا ترجمان، مغلظات بکنے والا شہباز گل ،پی ٹی آئی کا سپوکس مین ہو۔ قبضہ مافیا،لٹیرے،غنڈے اور اجرتی قاتل پارٹیوں میں اعلیٰ عہدوں پر ہوں۔ تو سیاسی حالات بھی یہی رہیں گے ۔ سیاسی تلخی بھی ایسے ہی رہے گی۔ پراڈکٹ وہی ہوگی جو سیاسی جماعتوں نے پروڈیوس کی ہوگی۔ ان جماعتوں میں نہ کوئی الیکشنز ہیں اور نہ ہی ممبرز سازی۔ ہر طرف صرف تنظیم سازی ہی نظر آئے گی۔الیکشن کمیشن کی منافقت اور بدمعاشی ملاحظہ فرمائیں۔ کراچی جو مسائل کا شکار ہے۔ بلدیاتی الیکشن کی بروقت ضرورت ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشن منعقد کرانے کی رولنگ دے رکھی ہے۔ ادراروں کا اپنا کوئی میکنزم نہیں۔ اگر ہے تو کوئی اسے امپلیمنٹ نہیں کرتا، ادارے مفلوج ہیں، جج بدمعاشیہ کی پشت پرہیں، بیوروکریٹس یا تو بے لگام ہیں یا پھر کام کو اگلی حکومت پر چھوڑ رکھا ہے۔
قوم جنرل عاصم منیر کی طرف دیکھ رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم کے آنے سے خطے میں ہمسایوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ چین، روس،ترکی ، ایران سے تعلقات مثبت سمت اختیار کرینگے۔اندرونی حالات کا صیح سمت کی طرف تعین ہوگا۔
جنرل باجوہ کی وجہ سے افواج پاکستان کی ساکھ کو جس نفرت اور تضہیک کا سامنا کرنا پڑا، وہ ساکھ بھی بحال ھوگی۔نئے آرمی چیف فوج میں نئی تقرریاں و تبادلے بھی کرینگے تاکہ فوج کے مورال کو بلند کیا جاسکے۔آئی ایس پی آر کو اپنی حدود کا تعین کرنا ھوگا تاکہ سیاسی معاملات کو سیاسی لوگوں پر چھوڑ دیا جائے۔ آئی ایس آئی کو سیاسی رول ختم ھونا چاہئے۔ تاکہ اکھاڑ پچھاڑ نا ہوجس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ عدلیہ ،نیب، ایف آئی اے کو اپنی کا دائرہ کار طے ھونا چاہئے تاکہ کرپٹ افراد قانون کی گرفت سے بچ ناسکیں۔طاقتور اور کمزور پر قانون کا اطلاق ایک جیسا ھونا چاہئے۔ سیاسی لیڈر ہویا بیوروکریٹ، جج ہویا جرنیل، بزنس مین ہویا عام آدمی ۔قانون سب کے لئے برابر ۔ انصاف کی بروقت فراہمی سے ہی معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ (وگرنہ جیسی کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ) حالات ماضی کی عکاسی کرتے نظر آئینگے۔
قارئین کرام! پاکستان کے قائم سے آج تک دو خاندان اور فوجی ٹولہ اقتدار پر براجمان رہا۔ جنہوں نے عوامی امنگوں کا خون کیا۔آئین کی دھجیاں اڑائیں ۔ ظلم کا معاشرہ قائم کیا۔جرنیلوں ، صحافیوں اور عدلیہ نے اپنے منصب کے تقاضے پورے نہ کئے۔ جس کی وجہ سے عوام میں جرنیلوں،ججز اور صحافیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔75 سال ملکی سلامتی ،نظریاتی تشخص ، مذہبی رواداری اور اخلاقی قدروں کو ملیا میٹ کیا گیا۔ اسی لئے نوجوان طبقہ میں غصہ ،نفرت اور منفی سوچ پروان چڑھی ہے۔
گزشتہ تیس سال میں ایم کیو ایم اور فضل الرحمن نے مذہبی منافرت ، متشدد نظریات اور لسانی سیاست کا پرچار کیا ۔ جو مکتی باہنء کا طرز طریق تھا۔آج یہی کام پی ٹی آئی کا نوجوان کر رہا ہے۔ اندھی تقلید نے انکے رویوں کو تبدیل کردیا ہے۔ گھروں کا ماحول بدل چکا ہے۔ ہمارے کلچر اور تہذیب میں (میں نا مانوں )کا تصور سرایت کر چکا ہے۔ یو ٹیوب چینلز اورصحافی جگادریوں نے عوام کو مس گائیڈ کر رکھا ہے۔ ہر گھنٹے بعد نئے نئے جھوٹ گھڑے جاتے ہیں، کبھی فوج میں اختلافات کی خبریں ، کبھی شہباز شریف کا استعفیٰ، کبھی آرمی چیف کی عمران خان سے ملاقات کی جھوٹی خبریں بنائی جاتی ہیں۔
حکمران سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات دبانے کی کوشش کرتے ہیں، بہت عجیب معلوم ہوتا ہے جب دو نمبر قسم کے اعظم سواتی جیسی شخصیات اصحاب رسول کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔پیپلز پارٹی،مشرف لیگ اور پی ٹی آئی کے لئے ریاست مدینہ کا تصور پیش کرنے والے فواد چوہدری پارٹی ترجمان ہوں، ماضی میں
ن لیگ،پھر ضیاالحق ،جونیجو لیگ،مشرف لیگ اور اب پی ٹی آئی کو آخری امید قرار دینے والے شیدا ٹلی آئندہ کونسی اسلامی خلافت کی مثال دینگے۔ جب چور اچکا زیادہ مال بنا لیتا ہے۔ لوٹ مار کو چھپانے کی لئے سیاسی پارٹی جوائن کر لیتا ہے۔ تاکہ اپنے کالے کرتوتوں اور کالے دھن کو جمہوریت کے نام پر سیاسی چھتری فراہم کی جاسکے۔شرافت اور دیانتداری کا ڈھونگ رچانے والی ان سیاسی پنڈتوں کی حقیقت عیاں ہوتو کوئی ان کے منہ پر تھوکنا گوارا نہ کرے۔یہ درندرے اور سیاسی گدھ، ہر دور میں پارٹیاں بدلتے بیں۔ آئین پر بھاشن دیتے ہیں۔ مگر کرپشن، کالے دھن اور ناجائز مال بٹورنے کا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کبھی سب سے پہلے پاکستان، کبھی تبدیلی اور کبھی ریاست مدینہ کا حوالہ دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے کسی لیڈر کو کوئی بلیک میل کیوں نہیں کرتا،ان پر کرپشن کے داغ کیوں نہیں لگتے۔ کیوں یہ لوگ امانت و دیانت کے قائل ہیں۔ رشوت، دھوکہ دہی، لوٹ مار اور بدکاری انکی سرشت میں شامل نہیں۔ اللہ اور رسول سے محبت رکھنے والے ، نظریاتی ،تربیت یافتہ اور بے لوث افراد جماعت اسلامی کا اثاثہ ہیں۔
کرپٹ جرنیلوں، کرپٹ بیوروکریٹس سے وہ بلیک میل وہ ھوتے ہیں جو کرپٹ اور کانے ھوتے ہیں۔ چاہے وہ جج ھوں یا صنعتکار ،سیاستدان ھوں یا بیوروکریٹ۔
کہیں نہ کہیں رشوت، کرپشن، بدکاری اور دو نمبری کے چھینٹے ان پر ضرور ھوتے ہیں جنکی وجہ سے یہ لوگ سکیورٹی اداروں اور ایف آئی اے کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہوتے ہیں۔ حکمرانوں نے بڑے چوروں کو چھوٹ دے دی ہے۔ جیب کترے چھوٹے چور ، معمولی چوریوں سے تائب ہوکر پچاس کروڑ کی چوری کا سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ چند ہزار کی چوری پر جیل کون کاٹے۔
پچاس کروڑ کی چوری کرو، نا جیل اور نا مقدمہ،کوئی بھی سیاسی پارٹی جوائن کریں اور مزید مال بنائیں۔گزشتہ کئی ماہ سے عمران خان کا احتجاج جاری ہے۔ عمران خان گزشتہ چھ ماہ سے سڑکوں پرہیں۔ موجودہ حکومت کے خلاف احتجاجی ریلیاں ، جلسے اور مظاہروں نے انڈسڑی اور بزنس کو تباہ کردیا ہے۔ معشیت تباہی کی دبانے پر ہے۔ ایکسپوٹرز کے مال سے بھرے کنٹینرز پکڑ پکڑ کر انڈسٹری کو تباہ کردیا گیا ہے۔ سیاسی حالات نفرت۔ تشدد اور افراتفری کی طرف ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں انکی جان کو خطرہ ہے۔ احتجاج، ریلیاں، جلسے ۔ اداروں اور حکمرانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیہیں۔ انسانی قدریں اور اخلاقی روایات کا فقدان ہے۔ ریاست کے چاروں پلرز کھوکھلے اور ان پر عمارت اس پل جیسی ہے ۔ جس کی capacity سیلابی ریلے سے چھوٹی ہے۔ ملک بڑا، آئین بڑا ،سیاسی لوگ بونے۔بڑے عہدے۔سوچ چھوٹی۔پوشاک کے اندر گندہی گند، پڑھے لکھے، باشعور اور تہذیب یافتہ طبقے بھی منفی ذہنیت،منفی اپروچ اور منفی رویوں کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ سطحی سیاست نے ملک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہر ادارے میں کرپشن ہے۔ ڈیم، پل، ہائی ویزے کی تعمیر ہویا نئی ریلوے بوگیاں کی خرید، نئی بسوں کا معاملہ ہویا ملی دفاع کے لئے اسلحہ کی خرید، ہر ایک سودا میں مال بنانے کو ترجیح ہے۔ ملکی سالمیت، آئین کی پاسداری، اسلامی اقدار،اخلاقی تقاضے بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات پر ملک قربان کیا جا رہا ہے۔ قوم کو آئینی اور مذہبی پھکی کے نام پر ورغلایا جارہا ہے۔ ریاست مدینہ کا چورن بیچاجارہا ہے۔ خان صاحب آجکل گولیوں کی تعداد بتا رہے ہیں۔ کپڑوں میں سے جوئیں اور گولیوں کا نکلنا کوئی بعید نہیں۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص تین کوبرا سانپوں کے درمیان پھنس گیا۔ تین اطراف سے انکی پھنکار اور یلغار۔ اسکے پاس پسٹل میں گولی صرف ایک۔ سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کیا جائے۔ دشمن تین اور گولی ایک۔ عقل و دانش نے کہا کہ گھما کر گولی چلا ۔اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر زمین و آسماں نے دیکھا ۔ہواں کی سرسراہٹ ۔فضاں کی سنسناہٹ میں گھومتی گولی تینوں کوبرا سانپوں کو چیرتے ہوئے گزر گئی ۔ گولی کا کہنا تھا کہ میرے لائق کوئی اور خدمت ؟
صاحبو ! تاریخ ایسے ہی رقم ہواکرتی ہے۔
شعلے فلم میں گبر سنگھ اپنے بندوں کی درگت دیکھ کر کہتا ہے کتنے آدمی تھے۔ کمینوں تم چالیس اور وہ دو، ؟ ایسے ہی پستول ایک ۔گولیاں چار ،زخمی گیارہ ایک کی ہلاکت۔ چار گولیاں خان صاحب کو ۔ ایک گولی سینٹر فیصل جاوید کو۔ چار گولیوں کی عمران اسماعیل کے کپڑوں سے برآمدگی ۔ یہ گولیاں بھی گبر سنگھ کے آدمیوں کی بھڑک معلوم ھوتی ہیں۔ لڈیاں،بھنگڑے، دھمال اپنی جگہ ۔ مگر عوام کا کوئی پرسانے حال نہیں۔عوام کو آئینی پھکی ۔نام نہاد جمہوری پھکی ۔تبدیلی پھکی ،مذہبی پھکی کے چنگل سے آزاد ھونا ہے۔ دیانت دار ، محب وطن قیادت کو منتخب کرنا ھوگا۔ وہ قیادت صرف اور صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔
٭٭٭