سابق صدر پرویز مشرف دنیا سے رخصت ہوگئے، اللہ پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین، سابق صدر پرویز مشرف پاکستان کی سیاسی و عسکری تاریخ میں ایک ایسا باب ہے جس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔انہوں نے پاکستان میں بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھائے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں کوئی بھی حکمران اتنی برق رفتاری سے کام نہیں کر سکا جس میں خاص طور پر پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن اور میڈیا کے شعبے میں وسعت، بے تحاشا تعلیمی اداروں، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سمیت کتنے ہی نمایاں کام ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام شعبوں میں زوال پذیری کی آمد نے انہیں تباہ کردیا اور آج صورتحال رونے پر مجبور کر دیتی ہے مگر اس میں سابق صدر کا کوئی قصور نہیں۔سابق صدر پرویز مشرف نے اقتدار میں داخلے اور پھر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جو رواج اپنائے وہ آنے والے وقت میں پاکستان کو ایک ایسے راستے پر ڈال گئے جس کا اختتام ہوتا ہوا جو نظر آتا ہے وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ پاکستان میں سابق صدر ایوب خان اور سابق صدر ضیا الحق ایسے فوجی ڈکٹیٹر تھے جنہوں نے صرف عسکری مارشل لا کی قمیض پہن کر حکمرانی کی مگر پرویز مشرف پہلے فوجی حکمران تھے جنہوں نے عسکری اور سیاسی قمیض یکے بعد دیگرے پہن کر پاکستان پر حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پاکستان میں سول مارشل لا کی تاریخ کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کا کارنامہ ہے، جس کے بعد پاکستان کی سیاست ایک ایسے روپ میں نظر آنے لگیں کہ کرپٹ سے کرپٹ آدمی بھی منٹوں میں دودھ کا دھلا یا شریف نفس انسان چند منٹوں میں چھٹا ہوا بدمعاش نظر آنے لگا۔ سابق صدر پرویز مشرف سے یہ ہمیں بے انتہا ہمدردی ہو سکتی ہے، انسانیت کے ناطے ہم ان کی آخرت کے لئے دعاگو بھی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ تاریخ کبھی بھی ایسے جذبات انسانی احساسات کی پرواہ نہیں کرتے جس کے نتیجے میں موقف تبدیل ہو جائے، ہم چاہتے ہوئے بھی اس تاریخی حقیقت کو نہیں چھپا سکتے کہ کراچی میں بارہ مئی کی قتل و غارت ہو یا پھر اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد واقعہ ہو یا ایک منتخب حکومت کو سازش کے ذریعے گھر بھیجنے کی کوشش ہو۔ اور ان سب میں لاپتہ افراد میں بے تحاشہ ایسے خاندان جو اجڑ گئے تھے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک پرویز مشرف کی آخرت آسان فرمائے مگر تاریخ کبھی بھی آسانی سے شاید بخش نہ پائے کیونکہ جیل کا قیدی تو رہائی پا سکتا ہے مگر تاریخ کا قیدی رہائی کبھی رہائی نہیں پاتا۔
٭٭٭