اتوار22جنوری2023کی صبح تھی نہا دھو کر نیچے آئے۔ لینڈ لیڈی نے بغیر دودھ کی کافی پیش کی جو طاہر خان صاحب اور ملک اللہ بخش صاحب کی پسندیدہ بن چکی تھی لیکن ہمارے لئے وہ کڑوے گھونٹ تھے، طاہر صاحب نے جملہ چت کیا”یار تم کھانے پینے میں بڑے نخرے دکھاتے ہو” ہم نے خندہ پیشانی سے لیا کہ امریکہ میں رہ کر عادتیں بگڑ چکی ہیں۔ لیکن بغیر دودھ کی چائے اور کافی تو پاکستان میں بھی نہیں پی تھی۔ ملک اللہ بخش(اے بی) ہر وقت ہماری سپورٹ کے لئے تیار تھے” راستے میں رک کر آپ کو پسند کی کافی پلوائینگے۔ ” جی خوش ہوا وہ تمام وقت پریشان تھے کہ ہم خوش ہیں یا نہیں اور ہم باور کراتے اللہ بخش صاحب ہم ٹھیک ہیں انہونی بات کو قبول کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ باہر ٹیکسی کھڑی تھی کل والے ڈرائیور نے کہا تھا میں نئی ٹیکسی کا انتظام کرونگا۔ دیکھنے میں ٹیکسی نئی لگتی تھی لیکن چونکہ حکومت کی ملکیت تھی لہذا گزارے کے لائق تھی اور شو مئی قسمت75ڈگری کی شدت آمیز گرمی اور جس میں آگے ہائی وے پر آکر معلوم ہوا۔ ایرکنڈیشن خراب ہے لیکن کوئی چارہ نہ تھا اور سفر لمبا تھا ہوانا سے172میل سانتاکلارا شہر منزل تھی جہاں کیوبا اور سائوتھ امریکہ کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر چی گوارا کا مقبرہ تھا ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہاں جانا ممکن تھا لیکن اے بی نے اس کا انتظام کیا تھا اور ہم تفریحی سفر کو معلوماتی سفر میں تبدیل کرچکے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بتا چکے تھے زندگی کا یہ ایک یادگاری سفر ہے اور ہم ایک ایک منٹ باشعور ہو رہے ہیں ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں مل رہے ہیں جن کو وہ میسر نہیں جو ہمیں ہے۔ لیکن خوش ہیں اس کا راز ہم جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ ٹیکسی ہائی وے پر خراٹے بھر رہی تھی ہمیں طاہر خان اور اللہ بخش صاحب نے سازشی طور پر آگے بٹھایا تھا کہ میاں نے مزے لوٹو نظارے دیکھو، تھوڑے وقفہ بعد کوئی ٹرک نظر آتا، کوئی گھوڑا گاڑی خراماں خراماں بھاگتی نظر آتی کوئی عورت پیدل اپنی منزل پر جارہی ہوتی اس ویرانے میں اور وقتاً فوقتاً لوگ ہاتھوں میں پنیر اٹھائے اس امید پر کھڑے ہوتے کہ کوئی اللہ بخش صاحب کی طرح سخی دل رک کر پنیر خرید لے۔ لیکن چونکہ ڈرائیور صرف کیوبن بولتا تھا اور یہاں ہم تینوں بہرے اور گونگے تھے اور شاید ڈرائیور کو کافی کی طلب تھی اس نے سو میل کے بعد ٹیکسی ایک چھوٹے سے خوبصورت اسٹاپ(کافی ریستوران) پر روک دی اور نکل کر اندر کی طرف بھاگا ہم نے قہقہہ لگایا کہ اسکی ضرورت ہماری ناشتہ کی ضرورت بن گئی۔ دو مسکراتی خواتین، عمر شریف ہوتے تو کہتے پی آئی اے کی ائیرہوسٹس یہاں کہاں۔ فرق اتنا تھا کہ وہ ذرا اور قریب آکر مینو دکھا رہی تھیں ایک ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول رہی تھی۔ کافی تو نہیں البتہ ایکسپرلیو ملی وہ بھی ایک گھونٹ یہ اطالوی لوگوں کی دریافت ہے شراب گلاس بھر بھر کر پیتے ہیں جیسے سب کے سب عشق میں ناکام ہوکر بیٹھے ہوں یہ نظارے ہم نے اسپین، جبرالٹر اور ہوانا میں دیکھے تھے۔ مختصر سا ناشتہ تھا لگتا تھا ڈبل روٹی(اٹالین) کے دو دو سلائس اور انڈا آملیٹ دیسی مرغیاں میں اردگرد منڈلا رہی تھیں۔ طبیعت خوش ہوئی اور طاہر صاحب نے فوراً فقرا چست کیا۔ ”رونق آگئی” ہم نے کہا غلط فہمی ہے پسینہ چمک رہا ہے اور آپ سمجھتے ہیں مریض کا حال اچھا ہے ہم نے دیکھا اللہ بخش صاحب بھی خوش تھے اور انہوں نے بچوں کو خوش کرنے کے انداز میں پوچھا لڑکی پلیٹین اٹھا رہی تھی ہم نے اسے الوداع کہا”گریسیں” اور مسکراہٹ بکھر گئی۔یہ ہی کچھ دیکھتے ہوئے ہم سینٹ کلارا میں داخل ہو رہے تھے ایک بڑی سڑک پر دائیں ہاتھ پر ٹیکسی رک گئی ہم اترے تو سامنے اونچائی پر ایک چبوترے پر چی گوارا کا قد آدم (شاید بڑا ہوگا) مجسمہ کھڑا تھا اس کے ایک ہاتھ میں بندوقM-16تھی جو چی ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ہم تھوڑا سا اس کی بابت بتاتے چلیں اگر آپ بھول گئے ہوں چی گوارا1928میں ارجن ٹینا میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوا تھا میڈیکل کی سند لینے کے بعد اس نے اپنے کلاس فیلو سے کہا کیوں نا ہم پورے سائوتھ امریکہ کی سیر کریں موٹرسائیکل پر وہ تفریحاً موٹرسائیکل پر اپنے دوست کے ساتھ نکلا تھا۔ لیکن جوں وہ شہر شہر اور ملک ملک گیا اور وہاں کسمپرسی اور غربت کا عالم دیکھا اس کا دماغ گھومتا رہا۔ جگہ بیماری سے مرتے اور علاج کے بغیر لوگوں کو دیکھا اور اس نے جان لیا کہ اصل دشمن کون ہے فیڈل کاسٹرواس کا دوست بنا اور اس نے1956سے1959تک کیوبا کو ایک ظالم جنرل بتستہ سے کاسٹرو کے ساتھ مل کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا ا ور بالآخر جنرل سے نجات ملی کیوبا اس وقت کے روس کے ساتھ مل کر ایک نئے نظام کے تحت عوام کو غربت جاہلت اور بیماری سے نجات دلائی اندازہ کریں صرف1500سو جانبازوں کے ساتھ کیوبا کے شہر مرسیڈیز میں جنرل بتستہ کے فوجیوں کا محاصرہ کرکے مار بھگایا اور ڈپو پر قبضہ کرلیا اور کاسٹرو کے ساتھ مل کر عوام کو آزادی دلوا کر اپنے اگلے مشن پر بولیویا جا پہنچا۔ جہاں سامراجی طاقتوں کے زیر اثر آرمی نے اسے گھیر کر قتل کردیا اس وقت وہ دمہ کی تکلیف میں مبتلا تھا۔ ایک اور سراج الدولہ ایک اور ٹیپو سلطان یادگار بن گیا۔ اسکی باڈی کے بقیہ حصہ کو سانتا کلارا لا کر ایک خوبصورت مقبرہ پر اسکے مجسمہ کو کھڑا کرکے اسکے نیچے قہر بنا کر اس پر24گھنٹے گیس کی مدد سے مشعل جل رہی ہے وہیں اس کا میوزیم ہے۔ تصاویر لینے کی محانت ہے یہ سب کچھ دیکھ کر ہم باہر نکلے اور اس کے اردگرد اسکے ساتھیوں کی قبروں پر نظر ڈالی۔ جو سب کے سب کیوبا میں صحیح معنوں میں زندہ ہیں لوگ چی گوارا کو کاسٹرو سے اول رکھتے ہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں گلی گلی سینہ سینہ گھر گھر دیوار ریستوران پارک آپ کو چی گوارا نظر آئے گا۔ چی گوارا کے کچھ قول لکھتے چلیں۔ ”انقلاب کوئی سب نہیں جو پکنے کے بعد آپ کی گود میں میں آگرے”
”حقیقت انگیز بنو اور ناممکن کو ممکن بنائو” یہ بھی کہ ”جو الفاظ آپ کی نیت کے تابع نہیں کوئی معنی نہیں رکھتے” یہ بھی اہم بات کہی تھی ہم اس آزادی کی اہمیت نہیں جان سکتے جو بغیر کسی جدوجہد کے ملی ہو” مرتے وقت چی نے بولیوین سپاہی کی طرف دیکھ کر کہا تھا” جان لو کہ تم ایک انسان کو مار رہے ہو”شاید وہ کچھ اور کہتا لیکن اس کی سانس بند ہوگئی۔ ہم اس وقت کالج میں تھے جب یہ خبر ریڈیو پر سنی لگا کوئی ہمدرد چلا گیا۔ آج بھی سوچتے ہیں اور دیکھتے ہیں پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایک جنرل خندہ پیشانی ہے ملک کو بیچ کر اور خزانہ چرا کر بھاگ جاتا ہے۔ کیا پاکستانی عمران خان میں چی گوارا دیکھتے ہیں جو انکی جنگ لڑ رہا ہے اور ثناء اللہ، جنرل مریم(دونوں) زرداری بلاول بولیوین آرمی کی طرح عمران خان کے پیچھے ہیں ہم انکے ذکر سے تنگ اور تھک چکے ہیں اور انتظار کرتے ہیں جب عوام اٹھیں یہ22کروڑ عوام ہیں جب کہ کیوبا کی اس وقت آبادی صرف9لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
شاباشی ہے عوام کو جو کاسٹرو سے زیادہ چی کو اہمیت دیتے ہیں ہر چند کہ کیوبا میں کھانے پینے کی چیزوں کا کال ہے راشن پر ملتی ہیں اور وہ سگار، رم(گنے کے رس سے) پنیر کو برآمد کرکے زرمبادلہ بناتے ہیں ہم نے وہ جگہ بھی دیکھی جہاں کاسٹرو نے روس میں ایٹمی ری ایکٹر کے پھٹنے سے جانی نقصانات ہوئے تھے اور یوکرائن سے25ہزار یتیم بچوں کو لا کر شیلٹر بنایا تھا یہ1986کی بات ہے اب وہ بچے بڑے ہو کر وہیں کی زندگی کو اپنا چکے ہیں انکی پہچان کیوبا ہے۔
واپسی کا سفر بھی طویل تھا، یعنی172میل اور ہمارا خاموش ڈرائیور تیزی سے ہائی وے پر ٹیکسی بھگا رہا تھا جہاں جہاں ہائی وے پولیس کھڑی تھی وہ رفتار کم کر لیتا تھا۔ ہم اداس تھے اور سوچ رہے تھے یہ بھی کیا قوم ہے روس بکھر گیا کمیونزم یہاں آخری سانسوں پر ہے ،کاسٹرو بھی سان تیاگو(ہوانا سے540میل دوری پر دفن ہے وقت کم ہے دن ختم ہو رہا ہے اور چند گھنٹے بعد ہم ہوانا میں ہونگے جہاں پھر سے ریستورانوں کے مینو دیکھیں گے جہاں یونیفارم میں ملبوس مسکراتی ویٹرز مینواس طرح میز پر بجھائینگی جیسے خود بچھ گئی ہوں ہمارے لئے رم کے علاوہ بہت سی چیز شجر ممنوع ہے اور طاہر خان صاحب اس موقعہ پر خوبصورت سا شعر سنا ئینگے ہم اللہ بخش صاحب کے ساتھ قہقہہ لگائینگے بیگمات خفا نہ ہوں یہ مردوں کی محفل ہے(جاری ہے)۔
٭٭٭٭