ٹول ٹیکس میں بے جا اضافہ!!!

0
23

ٹول ٹیکس میں
بے جا اضافہ!!!

امریکہ سمیت دنیا بھر میں مہنگائی کے اعدادو شمار عروج پر ہیں ، نیویارک میں روز مرہ کے اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ لوگ دوسرے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں اور جو نیویارک میں گزر بسر کر رہے ہیں وہ بڑے محدود بجٹ میں زندگی کے معاملات کو چلا رہے ہیں ، ایسے حالات میں حکومت کی جانب سے منہاٹن میں ٹول ٹیکس میں اضافہ کرنا نیویارکرز پر اضافی بوجھ کے مترادف ہے ، ملازمین ، کاروباری افراد، ٹیکسی ڈرائیورز کے لیے ٹول کا اضافی بوجھ برداشت کرنا بہت مشکل ہے ، کاروباری افراد اور ملازمین تو کسی نہ کسی طرح ٹول میں اضافہ شاید برداشت کر ہی لیں لیکن ٹیکسی ڈرائیور پہلے ہی ییلو کیپ ، اوبر ڈرائیو کمپنیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ، ایسے میں ٹول ٹیکس کا بڑھنا ان کی مشکلات میں بڑے اضافے کے مترادف ہوگا، امریکا میں شرح سود 23 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح 48.3فیصدہوگئی ہے۔شرح سود 5 . 25 سے 5 50 کے درمیان رہے گی۔فیڈرل فنڈز کی شرح میں آخری مرتبہ اضافہ جولائی 2023 میں کیا تھا اور تب سے ہی یہ اسی سطح پر ہے، آخری مرتبہ کئے گئے اس اضافے نے شرح کو دو دہائیوں سے زائد کے عرصے میں بلند ترین سطح پر پہنچا دیا، آنے والے چند ماہ میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں معاشی سست روی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ سست روی ایسے وقت میں آرہی ہے جب کرونا وبا کے بعد پیدا ہونے والے معاشی تعطل کو گزرے محض دو سال ہی گزرے ہیں۔کسی بھی ملک میں مرکزی بینک شرح سود اس وقت بڑھا دیتا ہے جب وہاں مہنگائی بڑھ جائے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھائی جاتی ہے تاکہ لوگ کم خرچ کریں اور یوں طلب اور رسد کا توازن کسی حد تک برقرار رہے۔حال ہی میں برطانیہ کے مرکزی بینک یعنی بینک آف انگلینڈ نے ملک میں شرح سود میں کمی لانے کا فیصلہ کیا اور اس میں 25 بیسز پوائنٹس کی کمی لاکر شرح سود پانچ فی صد کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل ملک میں شرح سوْد 14 سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔دوسری جانب امریکی مرکزی بینک نے جولائی کے آخر میں اجلاس میں شرح سود میں کمی کا فیصلہ نہیں کیا اور اسے 5 اعشاریہ 25 سے 5 اعشاریہ 50 پر ہی برقرار رکھا گیا۔امریکہ میں معاشی سست روی کے خدشات کی ایک وجہ حال ہی میں سامنے آنے والی امریکی محکمہ محنت کی وہ رپورٹ بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور جولائی میں یہ شرح چار اعشاریہ تین فی صد پر جا پہنچی ہے جو اس سے قبل جنوری میں تین اعشاریہ سات فی صد تھی۔اس وقت حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے تاکہ عام افراد پر معاشی بوجھ کو کم کیا جا سکے ، آئے روز بڑھتی مہنگائی ، بے روزگاری اور شرح سود میں اضافے کے ساتھ ٹول ٹیکس میں اضافہ محنت کش افراد کے معاشی قتل کے مترادف ہوگا جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے ، اس حوالے سے نیویارک کی گورنر کیتھی ہوشل کو ہوشربا اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ عام لوگوں کی مشکلات کو کم کیا جائے نہ کہ بڑھایا جائے ، امریکہ میں سینکڑوں لوگ اس وقت فٹ پاتھوں اور سڑکوں کے کنارے پر رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے جمع خرچ نہیں ہے ، نیویارک کی حکومت کو چاہئے کہ لوگوں کے لیے مشکلات بڑھانے کی بجائے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے ، ایک امریکی صدر مقررہ چار لاکھ ڈالر سالانہ کماتا ہے، جس کی مالیت ہر سال قیمتوں میں اضافے سے کم ہو جاتی ہے۔مہنگائی میں حالیہ اضافے کے پیش نظر صدر کی تنخواہ کی قوت خرید اس وقت ان کے عہدہ سنبھالنے کے وقت کے مقابلے میں 18 فیصد کم ہے اگر مہنگائی میں اضافہ اپنی موجودہ شرح سے جاری رہا تو فوربز کے اندازوں کے مطابق 2028 تک جو بھی اقتدار میں ہوگا وہ امریکی تاریخ کا بدترین تنخواہ وصول کرنے والا صدر ہوگا۔امریکی صدر کی تنخواہ میں کمی کا اقدام نیا ہونے والا نہیں ہے بلکہ تاریخ میں بھی ہمیں اس کی واضح مثال ملتی ہے ، 1970 کی دہائی کے اواخر میں سٹیگ فلیشن سے صدر کی حقیقی تنخواہ میں بڑی کمی ہوئی، اور اس کے بعد سے مسلسل، نسبتاً کم افراط زر اس میں مسلسل کمی کر رہی ہے۔2001، بل کلنٹن نے مواخذے کی جنگ کی بدولت قانونی قرضوں کے بوجھ تلے دفتر چھوڑ دیا تاہم، ان کے جانشین کے لیے، صدارتی تنخواہ دوگنی ہو کر چار لاکھ ڈالر ہو گئی۔اب حکومت کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے منہاٹن سے اضافی ٹول ٹیکس کو فوری طورپر ختم کرے تاکہ ملازمین ، کاروباری افراد اور ٹیکسی ڈرائیوروں سمیت دیگر ٹرانسپورٹ مالکان سکون کا سانس لے سکیں ، گورنر کو اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here