یہ وقت کی ستم ظریفی کہہ لیجئے یا وہی گول چکر جسے کاٹ کر انسان اسی مقام پر آن پہنچتا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے، آج پاکستان کی سیاست میں وہی کچھ دُہرایا جا رہا ہے، جو ماضی میں ہوتا رہا،مگر کردار بدل چکے ہیں۔ ہیرو، زیرو اور زیرو ،ہیرو ہو چکا ہے، وہی جیل وہی عدالتیں اور وہی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک بار پھر سب کے سامنے ہے۔ میں ڈٹ کر کھڑا ہوں، ہار نہیں مانوں گا جیسی بے بس صدائے کانوں میں گونج رہی ہیں۔اپوزیشن کو مار اور اقتدار کے ہار کے لیے گردنیں بدلتی رہتی ہیں، مکالمہ وہی رہتے ہیں مگر چہرے نئے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں یا پرانوں کو ہی پالش کر لیا جاتا ہے۔کیا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ان پر بھی ایسا وقت آئے گا، وہ بھی عدالتی سازشوں اور فوجی چل بازیوں کا سامنا کریں گے اور مقدمات میں ان کو جو سزائیں ملیں گی وہ واضح طور پر فوجی نما سیاسی انتقام کی مثال بنیں گی، اگرچہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر بننے والے مقدمات میں انصاف کم اور انتقام کا تاثر زیادہ نظر آتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیاستدان وقت اقتدار میں اپنے ان اصولوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ عوام میں نعرے لگاتے ہوئے اقتدار کے مسند تک پہنچتے ہیں۔القادر یونیورسٹی کا اندازہ ہی لگا لیں کہ کیا پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوتا اور ایمانداری کا ڈھونگ رچانے والے بھی کیا کچھ نہیں کرتے رہے، اب تو بیان کرتے کرتے زبانیں تھک گئی ہیں کہ کس طرح ملک ریاض کی بلیک منی برطانیہ میں پکڑی گئی اور سزا ہونے کے بعد وہ رقم چونکہ پاکستان کا حق بنتی تھی، اس لیے پاکستان کو دیے جانے کے لیے برطانیہ حکومت نے رابطہ کیا اور کس طرح پھر ہماری اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے وہی پیسہ ملک ریاض کے لیے وقف کر دیا اور ان پیسوں سے جو درحقیقت پاکستانی عوام کی ملکیت تھے، ان سے ملک ریاض کو پاکستان میں ہونے والا جرمانہ ادا کروا دیا گیا۔ پاکستان میں کوئی بھی سیاستدان اپنے گلے میں کسی بھی کرپٹ پریکٹس کا پھندا خود ڈالتا نہیں بلکہ اس کے اس پاس کے مشیر اور اسٹیبلشمنٹ کے چالاکیاں ایسا ماحول بنا دیتی ہیں کہ بڑی سے بڑی حکومتیں بھی کوئی نہ کوئی بے وقوفی کر بیٹھتی ہیں اور یہی سب کچھ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہوا جن کو بھی شاید اس وقت یہ دلاسہ دیا گیا ہو کہ آپ فکر نہ کریں ہم وقت آنے پر سب کچھ دیکھ لیں گے مگر جب وقت آیا تو ان سیاست دانوں کو خود ہی یہ سب کچھ دیکھنا پڑا اور آج عمران خان بھی خود کو سزا کروا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی خوش قسمتی سمجھیے کہ ان کو میڈیا کے اس رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا جس کا نواز شریف نے کیا۔۔۔۔ اور اس تذلیل کرنے میں موصوف پیش پیش رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اس بات کا مکمل احساس ہے کہ کس طرح انہوں نے جعلی مقدمات قائم کر کے پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے خلاف زندگی کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی مگر عمران خان خوش قسمت ہے کہ اس کو مخالف بھی اس جیسے کم ظرف نہیں ملے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ میں پن پسند افراد کی تعیناتیاں نہ ہونے سے شروع ہوئی، اس کا پاکستان کی قوم یا جمہوریت کی مضبوطی والے نظریے سے بالکل تعلق نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ رانا ثنا اللہ پر منشیات کا کیس ڈال کر قسمیں اٹھائی گئی مگر آج پوری جماعت خود اسی گڑھے میں گری ہوئی ہے مگر اس کو وقت کے ستم ظریفی کہے یا وہ گول چکر جس میں ایک روز کا ہیرو اسی مقام پر ا پہنچتا ہے جہاں اس کی حیثیت زیرو ہو جاتی ہے مکالمے وہی رہتے ہیں کردار بدل جاتے ہیں۔
٭٭٭