اولیائے کرام!!!

0
45

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے گزشتہ کء کالموں میں دعا کے طریقے مسنون وظائف اور مخصوص اوراد کے زریعے سے دعا پر روشنی ڈالی گء ۔الحمد للہ! دعا ویسے تو بوقت ضرورت کہیں بھی مانگی جاسکتی ہے اور یہ اللہ پاک کا کرم ہے وہ عطا فرمائے جس کو جس طرح چاہے دعا قبول فرمائے دراصل دعا مانگنا بھی ایک توفیق ہے جس طرح ایک ماں اپنے مانگتے ہوئے بچے کو نظر انداز نہیں کرسکتی ممتا تڑپ جاتی ہے تو ستر مائوں مائوں سے زیادہ محبت کرنے والے خالق کائنات کا عالم کیا ہوگا سبحان اللہ اولیا کا مرتبہ ہم سمجھ نہیں پائے کیونکہ ہم طالب دنیا بن گئیے اور وظائف و دعا کو دنیا داری تک محدود کردیا ہر چند دنیا کیلئے بھی سعی کرنا اس کے ساتھ دعا کرنا محنت سب کچھ ہو تو دنیا ملتی ہے کہاں آخرت کی زندگی جہاں اس دنیا کے بعد کی زندگی ہوگی اس کا ہم خیال ہی نہیں !! اولیائے کرام ( اللہ والے بزرگان ) یہ تو اللہ سے ملاتے ہیں وہ راہ دکھاتے جہاں ھدایت و سیدھا راستہ ہو بس دین و دنیا سنور جاتا ہے ۔ عام رجحان ہے کہ اولیائے کرام علیہم الرحمہ کا تعارف کرامات اور تصرفات کے ذریعے کرایا جاتا ہے – اس میں شک نہیں کہ اولیائے کرام کی کرامات برحق ہیں, ہم ان کے قائل ہیں – لیکن اولیائے کرام کی عظمت کا راز ان کی تعلیمات, اخلاق اور کردار میں مضمر ہے – کیونکہ ان ہی میں بندگانِ خدا کی راہنماء اور تعلق باللہ کا سامان ہے – جب کہ کرامات اولیائے کرام کے مقام کی رفعت کو واضع کرتی ہیں – اصل چیز دین پر عمل اور اسلامی کردار ہے – کرامات, روحانی ارتقا کا ثمرہ ہوتی ہیں – اس لئے اولیائے کرام کی سیرت و کردار کو بیان نہ کرنا, جو ان کے روحانی ارتقا کا باعث ہے, اور محض کرامات کو بیان کرنا گھوڑے کے آگے تانگہ جوتنا ہے –
یہ بابرکت مہینہ ربیع الثانی پیران پیر دستگیر حضرت غوث پاک سے منسوب ہے ان سے متعلق ایک واقعہ گوش گزار کرکے اجازت چاہوں گا ۔ حضرت غوث پاک رحم اللہِ علیہ کے زمانہ میں ایک ولِیِ کامِل کو وِلایت سے محروم کر دیا گیا ۔ یعنی اس کی ولایت چھین لی گئی ۔ اور لوگ اسے مردود کہنے لگے۔ اس نے اپنے زمانہ کے تین سو ساٹھ (360)اولیائے کاملین سے اپنی وِلایت کی واپسی کیلئے دعا کروائی ، سب نے اس کیلئے اللہ پاک کی بار گاہ میں دعا کی لیکن مراد حاصل نہ ہوئی۔ اولیائے کرام میں سے بعض نے اس کا نام جب لوحِ محفوظ پر بدنصیبوں کی فہرست میں لکھا ہوا دیکھا تو اسے کہا کہ اب تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ اس کے بعد اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا ۔ وہ پریشانی کی حالت میں اولیا کے سلطان حضرت سیِدنا غوث اعظم رضِی اللہ عنہ کی خِدمتِ اقدس میں حاضِر ہوا اور اپنا سارا قِصہ بیا ن کردیا ۔ ولیوں کے سردار حضور غوث پاک رضِی اللہ عنہ نے فرمایا : آجا اگر تم مردود ہو گئے ہو تو کیا ہوا ۔ میں تمہیں اللہ پاک کے حکم سے مقبول بنا سکتا ہوں۔ اس کے بعد آپ رضِی اللہ عنہ نے اس کیلئے دعا فرمائی۔ تو اللہ پاک کی طرف سے جواب آیا : اے عبدالقادِر!کیا تمہیں علم نہیں کہ تین سو ساٹھ اولیائے کاملین اس کے لیے دعا کرچکے ہیں ، میں نے ان کی دعا کو قبول نہ کیا ۔ کیونکہ اس کا نام لوحِ محفوظ میں بد بخت لکھا جا چکا ہے۔ غوث پاک اللہ پاک کی بارگا ہ میں عرض کرتے ہیں : اے میرے اللہ تو رد کیے ہوئے کو مقبول اور مقبول کورد کیا ہوا بنانے پرقادِر ہے۔ اے میرے کریم اللہ اگر تیرا یہی ارادہ ہے کہ یہ شخص مردود ہی رہے تو مجھے اس کے مقبو ل بنانے کی دعا کرنے کی توفیق کیوں عطا کی۔ اللہ پاک کی
طرف سے جواب آیا ۔ اے عبدالقادِرہم نے اس کو تمہارے سپرد کیا جو چاہو کرو ۔ تمہارا مقبول میرا مقبول ۔ تمہارا رد کیا ہوا میرے ہاں بھی رد کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد سرکار ِ غوث پاک رضِی اللہ عنہ نے اس کو چہرہ دھونے کا حکم دیا تو اللہ پاک نے اس کا نام بدبختوں سے مٹا کر خوش بختوں کی فہرست میں لکھ دیا۔ اللہ پاک کی بارگاہ سے خطاب ہوا۔ اے عبدالقادِر ہم نے تجھے عدل و انصاف کے اختیارات عطا کئے ہیں ۔ تمہارا مقبول ہماری بارگاہ میں مقبول ہے ۔ اگر تمہارے ہاں اس کی کوئی عزت نہیں تو ہماری بارگاہ میں بھی اس کی عزت نہیں ہے ۔
(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر مترجم ، ص76)
اللہ پاک ہمارے دلوں میں اللہ والوں کی محبت قائم فرمائے آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here