مڈٹرم الیکشن: ری پبلیکنز کی برتری،82مسلم اُمیدواروں کی تاریخی فتح

0
107

نیویارک (پاکستان نیوز)ری پبلیکن جماعت نے اکثریتی علاقوں میں نشستیں جیت کر وسط مدتی انتخابی معرکہ اپنے نام کرلیا،مسلم امیدواروں نے مڈ ٹرم الیکشن میں وفاق، سینیٹ کی 38 ریاستوں میں 82 سیٹیں جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے ، مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ کیا، مسلم ووٹرز کو متحرک رکھنے میں مقامی مساجد اور اسلامک سینٹرز نے بھی بھرپور کردار ادا کیا جنھوں نے عبادت کیلئے آنے والے مسلم نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین کو ووٹ کا حق بھی استعمال کرنے کی طرف مائل کیا، سیاسی ماہرین مسلم امیدواروں کی 82 سیٹوں میں کامیابی کو مین اسٹریم کی طرف بڑی پیشقدمی قرار دے رہے ہیں ،2020 کے مڈٹرم الیکشن میں مسلم امیدواروںنے 71نشستیں حاصل کی تھیں، مسلم کمیونٹی نے ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مسلم امیدواروں عبدالناصرراشد، نبیلہ سعید، نبیلہ اسلام ، زینب محمد، منیرا،اسماعیل محمود،منا عابدی، دیقہ دہلق،رووا رومن، سلیمان للانی، سلیمان بھوجانی، فاروق مغل نے اپنی نشستیں جیت لیں، ورکنگ فیملی پارٹی کی بھرپور حمایت سے کیتھی ہوشل نے زیلڈن کو ہرا کر گورنرکی سیٹ جیت لی،حالانکہ زیلڈن نے نیویارک میں بڑھتے جرائم کے اپنے منشور کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لاکھوں ووٹ حاصل کیے اور مشکل کائونٹیز میں فتح سمیٹی لیکن بڑے معمولی مارجن سے شکست کھا گئے۔ البنی کائونٹی سے کیتھی نے زیلڈن کو 34فیصد ووٹوں کے مقابلے میں 52 فیصد ووٹوں سے ہرایا، الگانے کائونٹی میں زیلڈن 68 فیصد ووٹوں سے جیتے، برانکس میں کیتھی ہوشل کی کامیابی 72 فیصد ووٹوں سے ممکن ہوئی، زیلڈن 20 فیصدووٹ حاصل کر سکے، برومی کائونٹی میں زیلڈن 50فیصد سے زائد ووٹو ں سے آگے رہے، کیٹاراگس کائونٹی میں زیلڈن نے 61 فیصد ووٹ سمیٹے، چٹاگ کائونٹی میں زیلڈن 56فیصد ووٹوں سے آگے رہے، چیمنگ کائونٹی میں زیلڈن نے 60 فیصد ووٹوں سے فتح سمیٹی، کولمبیا کائونٹی میں کیتھی ہوشل 47 فیصد ووٹوں سے نمایاں رہیں، ڈیلاوائر، ڈچز کائونٹی میں زیلڈن آگے رہے، ایری کائونٹی میں کیتھی ہوشل جبکہ ای سیکس کائونٹی میں زیلڈن نے میدان مارا، ایس ٹی لارنس کائونٹی میں لی زیلڈن نے 58 فیصد، سٹیوبن کائونٹی میں 65 فیصد،لانگ آئی لینڈ کے علاقے ناسو ، سفلک کائونٹی میں 51 فیصد ،سولیون کائونٹی میں 53 فیصد ، ٹیوگا کائونٹی میں 62 فیصد ووٹوں سے میدان مارا۔دوسری طرف ڈیموکریٹس کیلئے انتخابی د ن مشکل ثابت ہوا ،خوش قسمتی سے ایف بی کائونٹی میں سلمان للانی ، رون روئے نولڈ، کے پی جارج،جولی میتھیو، ٹونی ویلس، گریڈی پرسٹیج ،روڈرک گانر ،سونیا راش، چیری تھامس نے اپنی سیٹیں جیت کر پارٹی پوزیشن کو بہتر بنایا،غیر ملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں 8 نومبر کو وسط مدتی انتخابات (مڈٹرم الیکشن) میں ایوان نمائندگان کی 435 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی، مختلف ریاستوں میں پولنگ کا وقت ختم ہوگیا ہے اور ووٹوں کی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ایوان نمائندگان میں ابھی ڈیموکریٹس کی 220 اور ریپبلکنز کی 212 نشستیں ہیں،ایوان کے اقلیتی رہنما کیون میکارتھی نے ایوان نمائندگان میں کہا کہ واضح ہے کہ ہم ایوان میں اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر واپس آرہے ہیں۔کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی قانون ساز نے ایوان کے 82 سالہ موجودہ اسپیکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ کل اٹھیں گے، ہم اکثریت میں ہوں گے اور نینسی پلوسی اقلیت میں شمار ہوں گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی عوام ایک ایسی اکثریت کے لیے تیار ہیں جو ملک کو نئی سمت میں لے جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن جماعت امریکا کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے تیار ہے۔میکارتھی اور دیگر ریپبلکن رہنما پرجوش ہیں کہ وہ ایوان اور سینیٹ دونوں میں ڈیموکریٹک کنٹرول کو شکست دینے کے لیے پراعتماد ہیں۔سی بی ایس نیوز کے مطابق اب تک کے نتائج کے مطابق ایوان زیریں میں ریپبلکن جماعت نے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں۔سی بی ایس کے اندازے کے مطابق امکان ہے کہ ریپبلکن کو ایوان نمائندگان میں 202 نشستیں ملیں گی جبکہ ڈیموکریٹس کو 188 نشستیں حاصل ہوں گی، جبکہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 218 نشستوں کی ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق میکارتھی نئی اسپیکر بننے کے لیے سب سے آگے ہیں، میکارتھی کئی عرصے سے اسپیکر بننے کی خواہش رکھتی ہیں، میکارتھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اسپیکر کے لیے ان کی نامزدگی کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوگی۔اگرچہ صدر جو بائیڈن کا نام کسی بیلٹ پیپر پر نہیں تاہم امریکا کے مڈ ٹرم الیکشنز ان کے مستقبل کے ایجنڈے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔خیال رہے کہ ایوان نمائندگان کی 435 اور ایک تہائی سینیٹ کی سیٹوں پر الیکشن ہوا ہے، ایوان میں جیت سے ریپبلکن جماعت کو اس کا کنٹرول ملنے کی امید ہے، تاہم سادہ اکثریت کے لیے ایوان میں 218 سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ایوانِ نمائندگان کی تمام 435 نشستوں سمیت سینیٹ کی 100 نشستوں میں سے 35 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوتی ہے۔وسط مدتی انتخابات میں عموماً حکومتی جماعت کو ایوان میں دوہرے ہندسوں کا نقصان ہوتا ہے، اس بار بھی کچھ اسی قسم کے نتائج کی توقع ہے، جو بائیڈن کی مقبولیت کا گراف 40 فیصد تک آگیا ہے، وبا کے اثرات 3 سال بعد بھی موجود ہیں اور مہنگائی 40 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here