قارئین کرام! امید ہے کہ آپ اپنے پیاروں کے ہمراہ خیر و سکون سے ہونگے، اللہ کریم حالیہ سنگین حالات میں آپ کو اپنی پناہ میں عافیت سے رکھے۔ فلسطین و اسرائیل کے مابین بھڑکنے والی آگ پر ہمارے گزشتہ کالم پر آپ کے تبصرے و ستائش پر ہم شکر گزار ہیں۔ ظلم و بربریت کی یہ آگ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ منتقمانہ و ظالمانہ اسرائیلی کارروائیوں سے غزہ کو نہ صرف مکمل طور سے تباہ و برباد کر دیا گیا ہے بلکہ زندگی کی تمام سہولتیں مسدود کر دی گئی ہیں۔ 23 لاکھ میں سے دس لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں، چینلز پر بے گناہ فلسطینی مردوں، عورتوں، بچوں کی لاشیں، مضروبیت دیکھ کر روح کانپ اُٹھتی ہے، ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں، درندگی کا بھوت تذلیل انسانیت کی انتہائی حدوں پر پہنچ چکا ہے۔ عالمی طاقتیں اور ادارے اپنے مفاد اور اغراض کے بھنور میں حالات کو کنٹرول کرنے اور امن کی کوئی راہ نکالنے کے برعکس جلتی پر تیل چھڑکنے اور اپنی برتری ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ نفرت اور عصبیت کی یہ آگ پھیل کر اب مختلف ملکوں اور شہروں تک پہنچ رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے شکاگو میں صہیونیوں کے ہاتھوں 6 سالہ معصوم بچے کی ہلاکت اس کی بدترین مثال ہے۔ یہاں شکاگو میں بگڑتی ہوئی صورتحال اور نفرت کی آگ کے سبب مساجد اور دینی اداروں کی پیٹرولنگ اور حفاظتی اقدامات کا آغاز کر دیا گیاہے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس کے حمایتی ممالک کی سپورٹ کے باعث فلسطین و حماس کے طرفدار بھی میدان میں آگئے ہیں اور خدشہ ہے کہ صورتحال عالمی سطح پر مزید نہ بگڑ جائے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں مسلم ممالک اور او آئی سی کے ناطے سے عرض کیا تھاکہ باجگزار اپنے آقائوں کے مفاد کیخلاف نہیں جائیں گے لیکن بلنکن کے حالیہ دورہ سعودی عرب و دیگر ممالک سے یہ احساس ہوا کہ فلسطین و قبلۂ اول کے حوالے سے مسلم اُمہ کا مؤقف واضح ہے لیکن کیا مسلم ممالک اپنے مطمع نظر اور مؤقف میں اتنے مضبوط ہیں کہ وہ اسرائیل کے حماییتوں کے مقابل کامیاب ہو سکیں۔ آپس کے بین المملکتی جھگڑے، اندرونی، سیاسی چپقلشیں، عدم استحکام اور مفادات میں گھرے ہوئے مسلم ممالک کیا فلسطینیوں کی حمایت میں عملی کردار ادا کر سکیں گے۔ محض زبانی کلامی حساب کتاب تک ہی محدود رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک (ماسوا چند ایک) اپنے مفادات کے سبب لیڈرز نہیں ڈیلرز ہیں جو ہر معاملہ میں تعلقات کو حقائق کے پیش نظر نہیں رکھتے اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں۔ اور مسلم ممالک و رہنمائوں کی بابت گریز کرتے ہوئے اگر ہم وطن عزیز پاکستان کا (جو عالم اسلام کی واحد نیوکلیائی قوت اور دنیا کی بہترین عسکری صلاحیت کا حامل ہے) جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارا وطن بین المملکتی، ریاستی، سیاسی، معاشی و دیگر حوالوں سے ڈیلر ہی ہے کسی طرح کی لیڈر شپ یا آزادانہ قیادت کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا تو معاملہ عجیب ہی ہے، یہاں تو عوام کی نمائندگی اور جمہوری سربراہی کیلئے بھی ڈیل پر ہی کام چلایا جاتا ہے اور اگر کوئی اس سے انحراف کرے تو اسے نوشتۂ دیوار بنا دیا جاتا ہے کہ اس نے ڈیلر سے لیڈر بننے کی کوشش کیسے کی۔ یوں تو پاکستان کی سیاسی تاریک ہی اس پراسس سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہی سامنے آگئی ہے کہ ڈیل کو تسلیم نہ کرنے پر عوام کے حقیقی رہنما کو کس طرح اقتدار سے محروم کر کے دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور الیکشن کے جھرلو کے نام پر اب ایسے فرد یا لیڈر کو سامنے لائے جانے کا کھیل کرنے کا ارادہ ہے جو ڈیل سے سیاست میں لایاگیا اور ڈیلوں سے ہی اقتدار میں آتا رہا ہے، ڈیل سے ہی سزائوں سے بھاگتا رہا ۔ نا اہل، مجرم، سزا یافتہ بھگوڑا نوازشریف اصل حکمرانوں سے ڈیل کر کے قوم کو لیڈ کرنے اور چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس شخص کا ریکارڈ ہے کہ یہ بغیر اقتدار کبھی پاکستان میں نہیں رہا۔ اپنے غرور، حرکتوں، لوٹ مار اور فوجی قیادت سے محاذ آرائی کے سبب اقتدار سے محروم ہو کر سعودی، قطری اماراتی ڈیل کے سبب ملک سے بھاگ لیتا ہے۔ لندن میں جائیدادیں، لوٹ مار کے اربوں ڈالرز اور پائونڈز اور بیٹوں کے کاروبار پر عیش کرتا ہے۔ (واضح رہے کہ اس کے بیٹے پاکستانی قومیت سے بھی انکاری ہیں) اور واپس پاکستان آنے کیلئے اقتدار سے مشروط کرتا ہے اور ڈیل کا چکر چلاتا ہے۔ اس دفعہ بھی یہ کہانی چلائی گئی لیکن اپنی منتقم مزاجی کی وجہ سے اس نے حسب سابق فوجی جرنیلوں و ججز کے احتساب کا دعویٰ کر کے اپنی لٹیا ڈبو لی اور نہ صرف اصل حکمرانوں سے ناراضگی لے لی بلکہ بیرونی ڈیل سے بھی محروم ہوا۔ 21 اکتوبر کو پاکستان آنے کا شور تو ہے لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلے اور ن لیگ سے عوام کی عدم دلچسپی اور اصل عوامی رہنماء عمران خان سے محبت کے باعث خود انہیں بلکہ اقتدار کے اصل فیصلہ سازوں کو ن لیگ سے ڈیل ممکن نظر نہیںآتی، سونے پر سہاگہ مجرم، سزا یافتہ، بھگوڑے کو عدالتوں، ضمانت و کیس کے خاتمے کے چکر میں کیا نوازشریف، آرمی چیف سے کوئی ڈیل کر کے لیڈر بن سکے گا یا نہیں۔ فلسطین کا تنازع ہو یا کشمیر میں بھارتی جبر و استبداد اور قبضہ یا پھر پاکستان میں آئین و جمہور کی حکمرانی کا معاملہ، ایک بات مشترک ہے کہ ہر معاملے میں ڈیل ہوتی ہے لیڈر شپ نظر نہیں آتی یعنی مسائل و تنازعات کا دارو مدار لیڈرز پر نہیں ڈیلرز کے توسط سے ہے۔
٭٭٭