اسلام آباد(پاکستان نیوز) حکمران اتحاد کی دو سب سے بڑی شراکت دار مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی میں مدینہ مسجدۖ میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں تحریک انصاف کے راہنماں کے خلاف مقدمات کے اندراج پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں. موقرانگریزی جریدے کے مطابق دونوں جماعتوں کے متعدد سینئر راہنماں کے ساتھ پس منظر میں کیے گئے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ حکمران اتحاد کے اندر ایک عام احساس ہے کہ حکومت نے اس معاملے پر زیادہ رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور تحریک انصاف کے راہنماں کے خلاف مقدمات کا اندراج اور کارروائی اب حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی کو عوامی سطح پر فائدہ مل رہا ہے۔ دونوں اتحادی حکومتی کے سنجیدہ راہنماں کا خیال ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے کے نعرے لگانے اور بعض ارکان کو زدوکوب کرنے پر پاکستانی زائرین کے خلاف فوری کارروائی کی گئی جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے سرکاری وفد اور اس واقعے کی وسیع پیمانے پر مذمت نے تحریک انصاف کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا لیکن حکومتی اقدامات نے ناصرف سابق حکمران جماعت کو نقصان پر قابو پانے بلکہ خود کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کرنے کا بھی موقع فراہم کیا ہے۔ کچھ مظاہرین کو وفاقی وزرا شاہ زین بگٹی اور مریم اورنگزیب کا پیچھا کرتے ہوئے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا جنہیں بعد میں محافظوں اور پولیس اہلکاروں نے بچایا اور وہاں سے لے گئے وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ کے ایک اہم رکن اور مسلم لیگ(ن) کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ مسجد نبویۖ کے واقعے کے بعد شروع میں لوگوں کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں اور ہمیں اس سے سیاسی فائد اٹھاسکتے تھے مگر ہمارے کچھ دوستوںکے اقدامات سے عوامی جذبات پی ٹی آئی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔