پاکستانی سیاست کا مکافات عمل !!!

0
126
مجیب ایس لودھی

پیسے کی بندر بانٹ نے پاکستانی سیاست کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ اللہ کی پناہ، پاکستان تحریک انصاف جو آج کل ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہے خود پیپلزپارٹی کے دور میں جہانگیر ترین نے پی پی کے اراکین کو کروڑوں روپے میں خریدا تھا ، پی ٹی آئی نے بھی اپنی حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی تھی جس میں جہانگیر ترین کا کلیدی کردار تھا، کیونکہ سرمایہ کاری وہی کر رہے تھے ، اب یہی وجہ ہے کہ وہ اراکین جنھوں نے جہانگیر ترین سے پیسے لیے تھے، پارٹی کی بجائے جہانگیر ترین سے وفاداری نبھا رہے ہیں ، حکومت اور جماعت کی بجائے جہانگیر ترین کی حمایت میں الگ گروپ بنائے بیٹھے ہیں۔اب حکومت نے ملکی سیاست سے اس گندے دھندے سے جان چھڑانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت سے منحرف ہونے والے اراکین کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکے ۔سپریم کورٹ نے اس حوالے سے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب ایک شخص کسی بھی سیاسی جماعت کو جوائن کر تا ہے پھر وہ اسی سیاسی جماعت کے منشور اور قوائد کا حصہ بن جاتا ہے ، کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے کی انفرادی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے ، سیاسی جماعتوں میں انفرادی کی بجائے اکثریتی رائے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے ،اس لیے کوئی فرد واحد کسی بھی جماعت میں رہتے ہوئے اپنے طور پرکسی رائے شمار ی کا بائیکاٹ کرے یا کسی رائے شماری کا حصہ بنے تو سیاسی جماعت کے قواعد کی خلاف ورزی تسلیم کیا جائے گا۔حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا 8صفحات کا ریفرنس 21پیراگرافس پر مشتمل ہے، ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں درج نہیں کہ ڈیفیکٹ کرنے والا رکن کتنے عرصے کے لیے نااہل ہوگا۔صدارتی ریفرنس میں وفاداری تبدیل کرنے پر آرٹیکل 62 ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہیے، ایسے ارکان پر ہمیشہ کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے بند ہوں، ووٹ خریداری کے کلچر کو روکنے کیلئے63 اے اور 62ایف کی تشریح کی جائے۔ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا منحرف ارکان کا ووٹ متنازعہ سمجھا جائے، نااہلی کا فیصلہ ہونے تک منحرف ووٹ گنتی میں شمارنہ کیا جائے؟سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کردیے گئے۔آرٹیکل63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائرکیا گیا ہے۔ صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے حوالے سے آرٹیکل186کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائرکرنے کی منظوری دی۔ صدرمملکت نے وزیراعظم عمران خان کے مشورے پرسپریم کورٹ کی رائے مانگی ہے۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے ریفرنس صدرمملکت کے دستخط کیساتھ سپریم کورٹ میں دائر کردیا گیا۔ریفرنس میں عدالت سے 2 بنیادی سوالات پر رہنمائی مانگی گئی ہے۔ عدالت سے پوچھا جائیگا کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ گنتی میں شمار ہوسکتا ہے؟ کیا منحرف ارکان کی نااہلی تاحیات ہوگی؟ریفرنس کے مسودے کے مطابق آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ مخصوص جماعت کے منشور پر منتخب رکن کا منحرف ہونا اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہوگا، اگر رکن اسمبلی ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتا ہے تو اسے مستعفی ہونا چاہئے، دوبارہ انتخاب لڑ کر اسمبلی آنے پر منحرف رکن باعزت سیاستدان کہلائے گا۔ریفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ دوسرا پہلو جمہوریت کی شفافیت کیلئے منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کا ہے، ضمیر کی آواز پر مستعفی نہ ہونے والے آرٹیکل 63 اے کے تحت رکنیت ختم ہوگی، کیا رکنیت خاتمے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ سے مسترد ہونے کا مطلب تاحیات نااہلی ہوگا؟ اور کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ منحرف رکن کے خلاف آرٹیکل 62ون ایف کا ڈیکلریشن نہیں ہوگا؟ریفرنس میں یہ بھی سوال کیا گیا کہ اراکین کو غیرآئینی طور پر منحرف ہونے سے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟بعض اراکین نے میڈیا پر اپنے منحرف ہونے کا برملا اظہار کیا ہے،ووٹوں کی خریدو فروخت کے ناسور کا بروقت خاتمہ نہ کیا تو حقیقی جمہوریت کا خواب پورا نہیں ہوگا جبکہ انتخابات میں عوام امیدواروں کا چناؤ پارٹی، منشوراورکردار کی بنیاد پر کرتے ہیں،پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔ریفرنس میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ محض چند دن کی نااہلی سے اراکین کو منحرف ہونے سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 63اے کا بنیادی مقصد ہی ہارس ٹریڈنگ کو روکنا ہے، اراکین کے منحرف ہونے پر حتمی فیصلے تک ان کا ووٹ شمار نہیں ہونا چاہئے اورمنحرف اراکین فائدے حاصل کرنے کیلئے کم وقت کیلئے رکنیت کے خاتمے کو ترجیح دینگے، ہارس ٹریڈنگ روکنے کا مقصد منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار نہ کرنے اور تاحیات نااہلی سے ہی پورا ہوگا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ایک سال قبل سینیٹ انتخابات میں بھی ہارس ٹریڈنگ سامنے آئی، ویڈیوز اورآڈیوز نے ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کی شناخت واضح کردی تاہم سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کے خلاف آج تک کچھ نہیں ہو سکا تاہم موجودہ حالات میں آرٹیکل 62 اور 63 اے کی تشریح سے عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ریفرنس میں حوالہ دیا گیا کہ بدنیتی اور فاؤل روکنے کیلئے عدالتی تشریح کے علاوہ کوئی دوسرا فورم موجود نہیں،منحرف اراکین کی اسمبلی میں بار بار نااہلی سے زیادہ نقصان دہ کچھ نہیں ہوسکتا، منحرف اراکین کی کم مدت کیلئے نااہلی ناسور کو پالنے کے مترادف ہوگی،منحرف اراکین کی نااہلی تاحیات اور ان کے داغدار ووٹوں کا شمار نہیں ہونا چاہئے۔
حکومت نے گیند اب عدالتی کورٹ میں ڈال دی ہے ، اگر سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سخت فیصلہ جاری کیا تو یقینی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ بڑی جیت ہوگی اور ملک سے ہارس ٹریدنگ جیسی لعنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here