کہتے ہیں کے بچے دل کا سکون آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں۔ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی معصومیت اس کا پرسکون انداز میں ہونا اور اس کی نازک جلد ہر طرح کے سردوگرم سے بے خبر یہ بچہ اور ہر انسان کا دل موہ لیتا ہے۔اور لوگ اس معصوم بچے پر پوری توجہ صرف کردیتے ہیںحالانکہ وہ ذرا ابھی یہ نہیں کہتا کہ مجھے اٹھا لو مجھے توجہ دو مگر لوگ اسے گود میں لینے کے لیے بے چین رہتے ہیںیہی بچہ جب تھوڑا اور بڑا ہوتا ہے تو اس کا مسکرانا ہاتھ پائوں مارنا ہنسنا اسے اور بھی پیارا بنا دیتا ہے یہی بچہ جب ایک دو سال کا ہوتا ہے تو اس کا لڑکھڑا کر چلنا گرنا اور اٹھنا بہت ہی پیارے جملے بولنا تو تتلانا اسی پر پیار ہی پیار آتا ہے۔اور لوگ بے اختیار ایسے بچوں سے پیار کرنے لگتے ہیں۔یہ اللہ کی بے حد پیاری مخلوق ہے۔جس کو محبت اور توجہ چاہئے ہوتی ہے والدین کو اللہ نے اسی لیے بنایا ہے کے وہ ایک معصوم بچے کو پال پوس کر بڑا کریں۔ایک چھوٹا بچہ بے شک لوگوں کی توجہ اپنی جانب کر لیتا ہے اپنی معصومیت اور اپنی معصوم حرکتوں کی وجہ سے مگر ایک بچہ آپ کے لیے ایک امتحان بھی ہوتا ہے۔وہ پیدا ہوتے ہی والدین کی رات کی نیند اور دن کا آرام چھین لیتا ہے۔مگر اللہ نے والدین کے دل میں اتنی محبت ڈالی ہوتی ہے کے وہ اس بچے کے لیے اپنا آرام اپنی نیند قربان کردیتے ہیںمگر دیکھا جائے تو بچے کو پالنا بھی ایک انسان کا کام نہیں ہے۔ایک پیدا ہوئے بچے کی دیکھ بھال تو والدین ہی کرتے ہیںلیکن نئے والدین کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی ہونا چاہئے تاکے انہیں بھی آرام اور سکون ملے۔خاص طور سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک نئی ماں کو جس کا پہلا بچہ ہو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔اسے اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھی نیند کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔
پہلے کے بزرگ کہتے تھے کے جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تھا تو سوا مہینے یعنی ایک مہینہ دس دن ماں کو بہت آرام دیا جاتا غریب سے غریب انسان بھی اچھی خوراک کا انتظام کرتا تاکے اس عورت میں طاقت رہے۔اور پھر بے شک وہ گھر کے کام دھندوں میں لگی رہے جتنی چاہے محنت کرے مگر اس وقت اسے اچھا آرام دیا جاتا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کے وہ ان کی نسل کو پروان چڑھائے گی، اس لیے اسے بروقت اچھی خوراک آرام اور سکون دیا جائے۔گھر کے بزرگ اور احباب تک اس میں مدد کرتے ہوئے بچے کو آرام سے اپنے پاس سلاتے ہیں تاکہ ماں تھوڑی دیر آرام کرے۔تمام لوگوں کی محنت سے ایک بچہ پروان چڑھتا جوکے نہ تو ماں باپ کے لیے بوجھ ہوتا نہ ہی اس کی معصوم شخصیت خراب ہوتی ہے وہ سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے وہ دنیا میں عزت پاتا اپنا مقام بناتا اور ایک مہذب اچھا انسان بنتا ہے۔
آج کل یہ سب کم ہوتا جارہا ہے والدین خود ہی ہر بوجھ اٹھانا چاہتے ہیں وہ آزادی کے طالب ہیں اور انہیں اکیلے ہی بچے پالنے ہوتے ہیں یوں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ایک مذہب جسمانی اور ذہنی بیماری سے دور نارمل بچہ پالنا مشکل ہوتا ہے والدین بھی چڑچڑے اور روکھے پھیکے ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب والدین تو چاہتے ہیں کے کوئی ان کی مدد کرے کوئی بزرگ یا کوئی بہن بھائی آجائے اور ان کی رہنمائی کردے انہیں سکون اورآرام دے مگر ان کو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ تمام گھر والے کہہ دیتے ہیں کے ہم مصروف ہیں یا پھر وہ کسی معاملے میں الجھنا ہی نہیں چاہتے ہیںیوں کوئی ان نئے والدین کی مدد نہیں کر پاتا۔
اگر ہم یہ سمجھ لیں کے ایک معصوم بچہ جو اس دنیا میں آیا ہے پیغام ہے اس بات کا کہ دنیا چلتی رہے گی انسان کو انسان کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اس لیے ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مدد کریںتاکہ دنیا میں اچھے سے اچھے انسان پروان چڑھیں۔
٭٭٭