اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کے نام پر سیاست، اپنے نظریہ، اختیار و حصول اہداف کا کھیل یوں تو کئی عشروں سے جاری ہے اور وقتاً فوقتاً اس حوالے سے اس کے مظاہر بھی سامنے آتے رہتے ہیں، مذہب کے نام پر اپنا مؤقف منوانے کیلئے تشدد سے بھی گریز نہیں کیا جاتا رہا ہے اور اس حوالے سے معصوم لوگوں، اقلیتوں حتیٰ کہ سیاسی مخالفین کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جاتا رہا ہے۔ پچاس کی دہائی میں قادیانیوں کیخلاف جماعت اسلامی کی تحریک سے لے کر حال ہی میں تحریک لبیک کی ماضی قریب میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی تحریک تک مذہب اور توہین دین و رسالت کو بنیاد بنا کر فساد برپا کرنے اور ہنگامہ آرائی و قتال کی ایک طویل داستان ہے جو تاریخ میں محفوظ ہے۔ مذہب کی آڑ میں ہنگامہ پروری، دھرنوں اور احتجاج کے نتیجہ میں ریاست و حکومت کی بے بسی نیز معاملات کو سنبھالنے میں دُشواریوں کا سامنا بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ کبھی حالات کو نپٹانے میں سختی کرنے سے حالات مزید کشیدہ ہو جاتے ہیں تو ریاست کو مصلحت و مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ دنوں میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے و احتجاجی مظاہرے کے بعد حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مفاہمتی معاہدے کی صورت میں نظر آئی۔ اس ہنگامے میں سینکڑوں سکیورٹی و پولیس اہلکاروں کی مضروبیت اور درجن سے زائد شہادتوں کے باوجود معاہدے کے مطابق نہ ان کیخلاف کوئی کارروائی کی جا سکی اور نہ ہی زیر حراست ذمہ داران کو مزید گرفتار رکھا جا سکا۔ ٹی ایل پی کے سربراہ سمیت تمام افراد کو رہا کئے جانے کیساتھ اس جماعت پر لگی پابندی بھی ختم کر دی گئی۔ کہنے کو تو یہ اقدام امن و امان کی بحالی اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے پیش نظر کیا گیا لیکن ٹی ایل پی کو اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ان کے روئیوں اور نکتۂ نظر کو مزید تقویت ملی۔ گزشتہ جمعہ کو سیالکوٹ میں مقامی فیکٹری کے سری لنکن نژاد پروڈکشن مینجر کے بیہمانہ قتل اور اس کی لاش جلائے جانے کی صورت میں جو واقعہ پیش آیا ہے مذہب و انسانیت کی اس بدترین مثال کی وجہ یہ گردانی گئی کہ آنجہانی پروڈکشن مینجر نے فیکٹری میں رنگ و روغن کے درمیان مشینوں پر لگے پوسٹرز و فلایئرز اُکھاڑ کر توہین رسالتۖ کی تھی۔
واضح رہے کہ مذکورہ پرینتھا کمارا نامی سری لنکن مقتول اردو زبان سے ناواقف تھا، ملازمین سے اس کا ربط اور واسطہ انگریزی زبان میں رہتا تھا۔ پولیس رپورٹ وتحقیقات کی تفصیل تو قارئین یقیناً اخبارات و دیگر میڈیا ذرائع سے جان چکے ہونگے، مختصراً یہ کہ وزیرآباد روڈ پر واقع کھیلوں کے سامان بنانے والی اس فیکٹری کے ایک بین الاقوامی آرڈر کے حوالے سے متعلقہ ادارے کی آمد سے قبل تیاری کے حوالے سے مقتول نے اپنے سپر وائزر اور متعلقہ ورکرز کو پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کی صفائی اور مشینوں پر لگے پوسٹرز وغیرہ اُتارنے کی ہدایت کی، عملے کی عدم کارروائی پر اس نے خود یہ کام شروع کیا۔ وزیر آباد کی اس فیکٹری میں ٹی ایل پی کے کارکن بڑی تعداد میں ملازم ہیں، انہوں نے مشینوں پر ٹی ایل پی کے پوسٹرز چسپاں کئے ہوئے تھے (یاد رہے کہ ٹی ایل پی کا حالیہ دھرنا کئی روز وزیرآباد روڈ پر رہا) پرینتھا اردو زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ٹی ایل پی کے پوسٹرزسمیت عدم واقفیت کی بناء پر تمام چسپاں میٹریل ہٹا رہا تھا۔ مذہب کے ٹھیکیدار بننے والے موجودہ عناصر نے اس امر کو وجہ بنا کر ہنگامہ اور پرینتھا کو زود کوب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مالکان کی مداخلت پر پرینتھا نے معذرت و معافی بھی چاہی لیکن جنونیوں کے سر پر بھوت سوار تھا، مذہب اور حُرمت رسولۖ کو وجہ بنا کر نہ صرف اس فیکٹری بلکہ آس پاس کی فیکٹریوں سے ٹی ایل پی کے جنونی بھی اس ننگ انسانیت کارروائی کا حصہ بن گئے اور پرینتھا کو مار مار کر ادھ موا کر دیا، مقتول کا سپر وائزر اور بعض دیگر اسے حملہ آوروں سے بچانے کیلئے چھت پر لے گئے تو یہ دہشت گرد وہاں بھی پہنچ گئے اور بربریت جاری رکھی اور پرینتھا کو چھت سے نیچے پھینک دیا۔ پرینتھا مر چکا تھا لیکن یہ وحشی پھر بھی باز نہ آئے اور سڑک پر اس کی لاش کو جلا کر بھسم کر دیا ۔
مذہب کی اور رسول اللہۖ کی حُرمت کو وجہ بنا کر انسانوں کا قتل کرنیوالوں کا عمل نہ دین کے مطابق ہے نہ انسانیت کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے مفاد میں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت یہ درندگی، بے رحمی، بیہمیت اور سنگدلی کی وہ بدترین شکل ہے جو انسان کو جانور سے بھی بدترین درجے میں رکھتی ہے انسانیت کی توہین ہے اور دین کا بدترین عمل ہے۔ حدیث قُدسی ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ حدیث پاک ہے کہ جلانے کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کو ہے، انسانوں کو نہیں۔ غور کیجئے کہ دین کے نام پر اور رسول رحمت العالمینۖ کے عاشق ہونے کے دعویدار ان درندوں کا یہ عمل نبی رحمتۖ کی سیرت مبارکہ سے انحراف کر کے کیا پیغام دینا تھا۔ میرے آاۖ کا کردار عظیم تو یہ تھا کہ جو بڑھیا آپۖ پر روزانہ کُوڑا پھینکتی تھی اس کے بیمار ہونے پر آپۖ اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ طائف کے لوگوں کے مظالم پر فرشتوں نے پوری بستی پلٹ دینے کی اجازت چاہی تو حضورۖ رحمت العالمین نے منع فرما دیا۔ اس نبی رحمتۖ کے عشاق ہونے کے داعی ٹی ایل پی کے لوگوں کا یہ عمل دنیا میں امت مسلمہ کیلئے شرمندگی اور بدنامی کا سبب بنا ہے، پاکستان کے بد نما چہرے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
اس نفرت انگیز و بیہمانہ قتل پر دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کیساتھ سوشل میڈیا نے بھی پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف جو کیچڑ اُچھالا ہے خصوصاً بھارتی و اسرائیلی و امریکی میڈیا نے جو پروپیگنڈہ کیا ہے وہ مسلم امہ و پاکستان کیلئے باعث شرم و ندامت ہونے کیساتھ اسلامو فوبیا کے غلیظ پروپیگنڈے کیلئے مہمیز بننے کا باعث بن سکتا ہے۔ ٹی ایل پی کیلئے تو اپنی فطری منفی روش اور پالیسیوں کے باعث اس عالمی پروپیگنڈے کی شاید کوئی اہمیت نہ ہو کہ ان کا وطیرہ شروع سے ہی یہ رہا ہے لیکن مشکلات و آزمائشوں میں گھرے ہوئے پاکستان اور مسلم اُمہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ضرور بنا ہے۔ حکومت پاکستان خصوصاً وزیراعظم اور حکومت پنجاب و پولیس کی کارکردگی و اقدامات یقیناً مستحسن ہیں لیکن کیا شبہات ختم کئے جا سکتے ہیں کہ ماضی کی طرح ٹی ایل پی کے اس بھیانک و دین و دنیا دشمن جرم پر بھی وقت اور مصلحتوں کی دُھول پڑ جائیگی۔ فضل الرحمن کا بغض عمرانیہ میں بیان اور پرویز خٹک کے جذبات کے حوالے سے جملے اس امر کی نشاندہی بھی اس شک کو تقویت دے رہے ہیں کہ سیاسی مفادات کے تحت ٹی ایل پی اور اس کے جنونی اور وحشی درندوں کو پھر راہ مفر مل جائے گی اور یہ مذہب کی آڑ اور اپنے ووٹ بینک کے زعم میں ظلم، بربریت اور بیہمیت کا گھنائونا و منافرانہ کھیل جاری رکھیں گے۔ یہ وقت ہے کہ وطن کے سار طبقات بالخصوص سیاسی، میڈیا، مذہبی، ریاستی اشرافیہ تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر اس ناسور کا قلع قمع کرنے پر یکجائی کا مظاہرہ کریں۔
بے گناہوں کا لہو بہتا رہے گا کب تک
دیس میر ایہ ستم سہتا رہے گا کب تک
٭٭٭