وظائف و تعویزات کی ڈیمانڈ!!!

0
84
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ایک سلسلہ جو چند ہفتوں سے شروع کیا اس کو ایسی پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع تھی خیر یہ دین کے کام ہیں آجکل لوگ وظائف مانگتے ہیں،تعویزات کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جبکہ اپنی ابدی زندگی سنوارنے کا خیال نہیں کرتے، اس وجہ سے وظائف کو چھوڑ کر اب دین کی باتیں ہونگی اس ہی درمیان آپ کو دعائوں کے مسنون طریقے بتائے جائینگے جو کلام الٰہی و اسمائے الٰہی کے ورد ہونگے اس کا فائدہ قارئین دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہوں ۔
قارئین سے درخواست ہے گھنٹوں نیٹ پر اپنا وقت بے کارمیں برباد کرنے کے ایک دس منٹ ایسے مقالہ جات بھی پڑھا کریں ۔ہم ہر ہفتہ ایک دو آیات مع ترجمہ اور تفسیر بغور پڑھیں گے تو ہمارے علم و عمل میں کافی اضافہ ہوگا۔شکریہ ۔اللہ پاک ہم سب کو قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین ۖ ۔
# ********** تفسیر سور البقرہ **********
# ********** تفسیر : صراط الجنان **********
# ********** آیت ,139
ترجمہ : کنزالعرفان: تم فرما : کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی اور ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور ہم خالص اسی کے ہیں ۔ تفسیر : صراط الجنان: کیا تم ہم سے جھگڑتے ہو۔} یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم پہلی کتاب والے ہیں ، ہمارا قبلہ پرانا ہے، ہمارا دین قدیم ہے، انبیا کرام علیہِم الصلواة والسلام ہم میں سے ہوئے ہیں لہٰذا اگر محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہِ والِہ وسلم نبی ہوتے تو ہم میں سے ہی ہوتے ۔اس پر یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی، (خازن، البقر، تحت الآی: ، / ، روح المعانی، البقر، تحت الآی: ، / ، ملتقطا) ور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہِ والِہ وسلم کے ذریعے ان سے فرمایا گیا کہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب اللہ تعالی ٰہے ،اسے اختیار ہے کہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نبی بنائے، عرب میں سے ہو یا دوسروں میں سے۔{ و نحن لہ مخلِصون : اور ہم خالص اسی کے ہیں۔} یعنی ہم کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں کرتے اور عبادت و طاعت خالص اسی کے لئے کرتے ہیں تو عزت کے مستحق ہیں۔نیز خالص اللہ تعالیٰ کا وہی ہوتا ہے جو اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہِ و الِہ و سلم کا ہو جائے اور جو رسول صلی اللہ تعالی علیہِ و الِہ و سلم کا ہو گیا وہ اللہ تعالی کا ہو گیا۔ رب تعالی فرماتا ہے:
من یطِعِ الرسول فقد اطاع اللہ (النسا: )ترجمہ کنزالعرفان : جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اعلی حضرت رحم اللہِ تعالی علیہِ فرماتے ہیں :
جو کہ اس در کا ہوا خلقِ خدا اس کی ہوئی
جو کہ اس در سے پھرا اللہ ہی سے پھر گیا
# ********** تفسیر سور البقرہ **********
# ********** تفسیر : صراط الجنان **********
# ********** آیت , 140 **********
ترجمہ : کنزالعرفان۔ (اے اہلِ کتاب!) کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے۔ تم فرما : کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جس کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔
تفسیر : صراط الجنان
{ ام تقولون : کیا تم کہتے ہو۔} یہودی کہتے تھے حضرت ابراہیم علیہِ الصلو والسلام یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ عیسائی تھے ان کی تردید میں یہ آیت اتری کہ یہودیت و عیسائیت تو ان کے بعد دنیا میں آئیں وہ کیسے اس دین پر ہوئے؟
{ و من اظلم مِمن : اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟} اللہ تعالی کی گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے اور یہ یہودیوں کا حال ہے جنہوں نے اللہ تعالی کی شہادتیں چھپائیں جو توریت شریف میں مذکور تھیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہِ و الِہ و سلم اس کے نبی ہیں اور ان کے یہ اوصاف ہیں اور حضرت ابراہیم علیہِ الصلو والسلام مسلمان ہیں اور دینِ مقبول اسلام ہے نہ کہ یہودیت و نصرانیت۔ اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں لیکن حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہِ و الِہ و سلم کی عظمت و شان کی آیتوں کو چھپاتے ہیں اور انہیں عوام کے سامنے بیان نہیں کرتے۔
# ********** تفسیر سور البقرہ **********
# ********** تفسیر : صراط الجنان **********
# ********** آیت , 136
ترجمہ : کنزالعرفان۔
(اے مسلمانو!) تم کہو : ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو باقی انبیا کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہوئے ہیں ۔
تفسیر : صراط الجنان
{ قولوا : تم کہو۔} یہاں انبیا کرام علیہِم الصلو والسلام سے متعلق چند باتیں یاد رکھیں :
(1)تمام انبیا علیہِم الصلواة والسلام اور تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے ، جو کسی ایک نبی علیہِ الصلواة والسلام یا ایک کتاب کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے، البتہ انبیا کرام علیہِم الصلواة والسلام کی تعداد مقرر نہ کی جائے کیونکہ انبیا کرام علیہِم الصلواة والسلام کی تعداد کسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں۔
(2) انبیا کرام علیہِم الصلواة والسلام کے درجوں میں فرق ہے جیسا کہ تیسرے پارے کے شروع میں ہے مگر ان کی نبوت میں فرق نہیں۔
(3)انبیا کرام علیہِم الصلواة والسلام میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں۔
(4) یہ بھی معلوم ہوا کہ سارے نبی نبوت میں یکساں ہیں ،کوئی عارضی، ظلی یا بروزی نبی نہیں جیسے قادیانی کہتے ہیں بلکہ سب اصلی نبی ہیں۔
# ********** تفسیر سور البقرہ **********
# ********** تفسیر : صراط الجنان **********
# ********** آیت , 137 **********
ترجمہ : کنزالعرفان
پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ صرف مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ تو اے حبیب! عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کافی ہوگا اور وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
تفسیر : صراط الجنان
{ بِمِثلِ ما امنتم بِہ: تمہارے ایمان کی طرح۔} یہودیوں کو صحابہ کرام رضِی اللہ تعالی عنہم کی طرح ایمان لانے کا فرمایا :، اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضِی اللہ تعالی عنہم کا ایمان بارگاہِ الٰہی میں معتبر اور دوسروں کیلئے مثال ہے۔
فسیفِیہم اللہ : تو عنقریب اللہ تمہیں ان کی طرف سے کفایت فرمائے گا۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہِ و الِہ و سلم کو غلبہ عطا فرمائے گا اور اس میں غیب کی خبر بھی ہے کہ آئندہ حاصل ہونے والی فتوحات کا پہلے سے اظہار فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ذمہ پورا ہوا اور یہ غیبی خبر صادق ہو کر رہی، کفار کے حسد و دشمنی اور ان کی مکاریوں سے حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہِ و الِہ و سلم کو کوئی ضرر نہ پہنچا۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہِ والِہ وسلم کو فتح نصیب ہوئی، بنی قریظہ قتل ہوئے جبکہ بنی نضِیر جلا وطن کئے گئے اور یہود ونصاریٰ پر جزیہ مقرر ہوا۔
# ********** تفسیر سور البقرہ **********
# ********** تفسیر : صراط الجنان **********
# ********** آیت , 138 **********
ترجمہ : کنزالعرفان
ہم نے اللہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے؟اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں ۔
تفسیر : صراط الجنان
{ صِبغ اللہِ : اللہ کا رنگ۔ جس طرح رنگ کپڑے کے ظاہر و باطن میں سرایت کرجاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے سچے عقائد ہمارے رگ و پے میں سما گئے ہیں ،ہمارا ظاہر و باطن اس کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ ہمارا رنگ ظاہری رنگ نہیں جو کچھ فائدہ نہ دے بلکہ یہ نفوس کو پاک کرتا ہے۔ ظاہر میں اس کے آثار ہمارے اعمال سے نمودار ہوتے ہیں۔ عیسائیوں کا طریقہ تھا کہ جب اپنے دین میں کسی کو داخل کرتے یا ان کے یہا ں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو پانی میں زرد رنگ ڈال کر اس میں اس شخص یا بچہ کو غوطہ دیتے اور کہتے کہ اب یہ سچا عیسائی ہوگیا ۔اس کا اس آیت میں رد فرمایا کہ یہ ظاہری رنگ کسی کام کا نہیں۔
امید ہے قارئین کرام پڑھ کر ثواب حاصل فرمائیں گے اور وظائف و تعویزات پر اسرار نہیں کریں گے ہر چند کہ علم ہے لیکن وقت پر اس کو تذکرہ آئیگا اللہ پاک کے کلام کو پڑھیں اور سمجھیں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز یہی ہے آپ کو کس طرح سمجھائوں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here