مصدقہ افواہیں جو اِن دنوں پاکستان میں گشت کر رہی ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے آخری دِن پی ٹی وی کے چیئر مین نے پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو کال کرکے اُن سے یہ گزارش کی تھی کہ وہ کسی بھی صورت میں میچ کو قبل ازوقت ختم نہ ہونے دیں، اِس صورتحال میں پی ٹی وی پر چلنے والے پتال دانیدار چائے ، کھٹمل مار نے والی دوائیں اور نیا ناظم آباد میں چار یا پانچ کمرے کے اپارٹمنٹس کے کمرشلز کی رقم سے زبردست کٹوتی ہوجائیگی، جس کے نتیجے میں پی ٹی وی کو طبلچیوں اور قوال خواہوں کو لال پرچی دینی پڑ جائیں گی،بابر اعظم نے موقع غنیمت جان کر یہ عرض کردیا تھا کہ اُنہوں نے اپنے کزن کو پی ٹی وی میں پروگرام پروڈیوسر کی نوکری کیلئے بھیجا تھالیکن اُسے بھی ریڈ کارڈ دکھا دیا گیا تھا، پی ٹی وی کے چیئر مین نے بابر اعظم کو یہ جواب دیا کہ اُس بندے کی انگریزی بہت کمزور ہے ، وہ تو پروگرام کی اسپیلنگ بھی صحیح طور پر نہیں کر سکتا ہے جس پر بابراعظم غصے میں پی ٹی وی کے چیئر مین پر برس پڑے اور کہا کہ ہمارا کزن ابھی ابھی ہجرت کرکے لکھنائو سے آیا ہے، وہ وہاں ریڈیو پر طبلہ بجایا کرتا تھا لیکن وہ انگریزی اور پنجابی سیکھ رہا ہے. تعلیم بالغان کے کلاسیز میں جاکر وہ انگریزی کی بول چال بھی سیکھ لے گا، پاکستان ٹیم کے بہت سارے کھلاڑی وہیں جاکر انگریزی سیکھی ہے، ” بابر اعظم صاحب کرکٹ کے کھلاڑیوں اور پی ٹی وی کے پروگرام پروڈیوسروں کی قابلیت میں بہت زیادہ فرق کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن جب اُس کی انگریزی درست ہوجائے تو پھر آپ اُسے بھیج دینگے” پی ٹی وی کے چیئرمین نے جواب دیا،بابر اعظم نے سرگوشی کرتے ہوے کہا کہ ” شاید وہ کبھی نہ ہو” اُسی دیوانگی کے عالم میں یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ بیٹنگ کیلئے وہ جائینگے، عابد علی کے ایل بی ڈبلیو پر آؤٹ ہوجانے کے بعد وہ کریز پر پہنچ گئے اور جس میچ میں ایک رن فی اوور کی رفتار سے بنایا جارہا تھا، وہ وہاں چوکے کی بارش شروع کردی.لہذا میچ تقریبا”چار گھنٹے قبل ازوقت ہی ختم ہوگیا،پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین دوسرے ٹیسٹ میچ کیلئے میر پور کے گراؤنڈ کو منتخب کیا گیا ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میر پور بذات خود پاکستان کی تاریخ کیلئے ایک دوسرا پانی پت کا میدان ہے۔
واضح رہے کہ جنگجو بابر اور ابراہیم لودھی نے پانی پت کے میدان میں پہلی جنگ لڑی تھی جس کے بعد بابر نے سلطنت مغلیہ کی بنیاد ڈالی تھی تاہم میر پور 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ میں میدان کارزار بنا تھا. ایک جانب پاکستان کے حامی بہاریوں نے بھارت کی ریگولر فوج جو جدید ٹینک اور توپ سے مسلح تھی اُسکے سامنے سنگلاخ چٹان بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ بہاریوں کا سب سے پہلا مقابلہ مکتی باہنیوں سے ہوا تھا جسے اُنہوں نے کچل دیا تھا بعد ازاں مکتی باہنیوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک بٹالین ہندوستانی فوج کو اپنی مدد کیلئے لائی تھی اور میر پور پر توپوں اور ٹینکوں سے حملہ آور ہوے تھے۔سقوط ڈھاکہ مکمل ہوچکا تھا، جنرل نیازی عہد نامہ شکست پر دستخط کر چکے تھے لیکن اِس کے باوجود بھی پاکستان کے بے تیغ سپاہی بہاریوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا بالآخر ریڈ کراس کو جنگ روکنے کیلئے مداخلت کرنا پڑی تھی ۔آج اُسی میدان میں پاکستان کی ٹیم کے کپتان بابر اعظم بنگلہ دیش کی ٹیم سے نبرد آزما ہیں،میرا مقصد ہرگز ماضی کی تلخ یادوں کو کرید کر مستقبل کے امن کی راہوں کو مسدود کرنا نہیں ہے بلکہ میں تو خواہاں ہوں کہ پاکستان و بنگلہ دیش کے تعلقات گلاب پر گرنے والے شبنم کے قطرے کے مانند چمکتے دمکتے رہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کا جیتنا ایک معجزہ سے کم نہ تھا. پہلی اننگز میں مخالف ٹیم کا 330 رنز بنانا ہی اُن کی شکست کا باعث بن گیا، دوسری اننگز میں بنگلہ دیش کے کھلاڑی جب ِیچ پر آنا شروع ہوے تو وہ بہت خوفزدہ نظر آرہے تھے ، اُنہیں احساس تھا کہ وہ پاکستانی بائولرز خصوصی طور پر شاہین آفریدی اور حسن علی کے غیظ و غضب سے نہیں بچ سکیں گے یہی وجہ ہے کہ صرف 10 اوورز میں بنگلہ دیش کے 4معتبر کھلاڑی ڈھیر ہوگئے حالانکہ پہلی اننگز میں بھی پاکستانی بولرز کی کارکردگی عمدہ تھیں لیکن پھر بھی اُنہوں نے بنگلہ دیش کو 330 ر نز کا موقع دے دیا تاہم دوسری اننگز میں پاکستانی بولروں اپنی اُس فراخدلی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی، شاہین آفریدی اور حسن علی کے بالنگز کی رفتار
100 ایم پی ایچ کو متواتر عبور کر رہیں تھیں۔بنگلہ دیش کی ٹیم کے کھلاڑیوں کیلئے شکست تو دور کی بات اُنہیں اپنے جبڑوں کو محفوظ رکھنے کی لالے پڑگئیں تھیں، اُنکے بیٹسمین یاسر علی اور وکٹ کیپر بیٹسمین نورالحسن کو میچ چھوڑ کر برین اسکیننگ کے لئے جانا پڑ گیا تھا، یاسر علی کی یہ دِلی خواہش تھی کہ وہ بنگلہ دیش کی جانب سے ٹیسٹ میچ کھیلیں اور یہ پہلا موقع تھا اُنہیں ٹیسٹ میچ میں کھیلنے کی دعوت دی گئی تھی۔ وہ چاٹگام شہر کے ایک باسی ہیں اُنکے ہیلمٹ میں شاہین آفریدی کی دو بونسنگ بال ٹکرائی تھیں، اُنہوں نے اُس وقت تو کسی چوٹ کی شکایت نہیں کی لیکن بعد ازاں ریٹائرمنٹ لینے کو غنیمت جاں جانا، اُنہیں ہسپتال چیک اپ کیلئے لے جایا گیا اور جہاں ڈاکٹروں نے اُنہیں مکمل طور پر 24 گھنٹے آرام کرنے کا مشورہ دیا ،پاکستان کے دو اوپنرز بیٹسمین عابد علی اور عبداﷲ شفیق نے بنگلہ دیش کی ٹیم کے سنہرے خواب کو چکنا چور کر دیا تھا۔ وہ اُن کے اعصاب پر چٹان بن کر سوار ہوگئے تھے،دوسری اننگز میں یہ محض اتفاق تھا کہ ریفری نے اِس جوڑی کو ایل بی ڈبلیو قرار دے کر آؤٹ کردیا ورنہ عابد علی کی سینچری بھی مکمل ہوجاتی اور اُن ہی دونوں کے ہاتھوں میچ بھی اختتام کو پہنچ جاتا،دوسرے ٹیسٹ میچ کو بارش کے پانی نے ڈبودیا ہے۔