پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں پر مشتمل دہشت گردی جو افغان جہاد یا فساد کے نام سے شروع ہوئی تھی اس نے آج پختونخواہ کو مکمل اور پورے ملک کو جزوی طور پر لپیٹ میں لے لیا ہے جس کے ہاتھوں اب تک90ہزار پاکستانی شہری اور چھ ہزار کے قریب فوجی اہلکار مارے جاچکے ہیں جس کے خلاف کئی آپریشن کیے جاچکے ہیں۔ مگر نتیجہ زیرو نکلا ہے۔ ”مرتا کیا نہ کرتا ”والی پالیسی سب کے سامنے ہے کہ فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں جس پر پاکستان میں شوروغل مچا ہوا ہے کہ جس میں پی ٹی آئی جمعیت اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی فوجی آپریشن کیخلاف ہیں حالانکہ مجوزہ دہشت گردی کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمن بار بار بچا رہے جبکہ اے این پی کی ایک درجن بھر قیادت اور سینکڑوں کارکن شہید کر ڈالے ہیں جو اب عنقریب پختونخواہ کی آزادی کا اعلان کرنے جارہے ہیں جس کا اعلان مولانا فضل الرحمن نے کردیا ہے کہ اب جنوبی علاقوں پر مشتمل اسلامیہ امارات وجود میں لائی جائے گی جس طرح افغانستان میں اسلامیہ امارات قائم ہوچکی ہے یہاں جمہوریت ناپید، انسانی حقوق پامال، خواتین تعلیم سے محروم ہوچکی ہیں جس پر طالبان بار بار پاکستان کو وارننگ دے چکے ہیں کہ ہم امریکی سلطنت سے زیادہ بُرا حال پاکستان کا کریں گے جو ہمیں بنا جنگ ڈیوریڈ لائن کے علاقے واپس کردے جس کا دائر کار پختونخواہ کے علاوہ دریائے اٹک کے آر پار چکوال اور میانوالی تک پھیلا ہوا جس کا مطالبہ عرصہ دراز سے کیا جارہا ہے۔ تاہم پاکستان اب دولخت کے بعد چار لخت سے دوچار ہونے جارہا ہے جس کے باقی عمران خان ہوگا جو کبھی پنجابی ،لاہوری، کبھی جالندھری، کبھی نیازی،کبھی پٹھان اور کبھی افغان کہلاتا ہے جن کے جلسوں اور جلوسوں میں افغانوں اور پشتونوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ جنہوں نے طالبان کی ایما پر آپریشن استحکام کی مخالفت کی ہے۔ جن کے اب حامی مولانا فضل الرحمن سرفہرست ہیں جنہوں نے اسلامیہ امارات کا اعلان بھی کردیا جو ایک لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اپنے اپنے مطالبات تحریکوں کی بچائے ملک توڑنے کو مناسب سمجھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کسی بھی ملک کا اتحاد یونین، فیڈریشن سوویٹ یونین کی طرح ٹوٹتی ہے۔ تو وہ اکائیاں کمزور پڑ جاتی ہیں جن کا وجود استعماری طاقتوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ جس طرح آج عرب ریاستوں کا حشر ہے کہ جو اسرائیل کے سامنے بے بس ہوچکی ہیں اگر عرب متحد ہوئے تو کبھی اس خطے میں اسرائیلی ریاست کا وجود نہ لایا جاتا۔ یہی حال پاکستان کا ہوگا کہ جب1971میں پاکستان دولخت ہوا تھا تو پاکستان کمزور پڑ گیا تھا آج چار لخت ہوگا تو پھر صوبہ یا اکائی بڑی طاقتوں خاص طور پر بھارت کے غلام بن جائیں گے جس طرح بنگلہ دیش بھارت کے ماتحت ہوچکا ہے۔ یا پھر وسطی ایشیائی ریاستیں بنا روس بچ نہیں سکتی ہیں۔ چونکہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کا تعلق افغانستان سے ہے جو طالبان کے ہمیشہ سے حامی ہیں عمران خان کے دور حکومت میں طالبان کی پاکستانی شاخ تحریک طالبان کی مکمل سیاسی اور مالی مدد کی جاتی رہی ہے آج بھی ان کی پختونخواہ حکومت تحریک طالبان کو بھتوں کے نام پر مالی مدد کر رہی ہے۔ جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کا اسلامی والڈ میں بارہ ملکوں کا اضافہ ہونے جارہا ہے۔جس کا آغاز پاکستان میں توڑ پھوڑ سے ہوگا جس میں لاکھوں انسانوں کا خون بہتا ہوا نظر آتا ہے جس کے بارے میں امریکی ایوانوں کی قرار داد بھی ایک اشارہ ہے جس کا قطر میں سالوں سال کے منصوبوں پر عملدرآمد ہوگا جس کا شکار پاکستان ہونے جارہا ہے یہی وجوہات میں کہ امریکہ جب افغانستان سے باہر نکلا تو اس نے لاکھوں کی تعداد میں فوجی جدید گاڑیاں جدید اسلحہ تک افغانستان میں چھوڑا ہے۔ جو اب وہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے بہرحال پاکستان کے بدقسمتی سے تمام ادارے تقسیم در تقسیم ہوچکے ہیں۔ عدالتوں میں جائز کو ناجائز اور ناجائز قرار دیا جارہا ہے۔ سابقہ فوجی اہلکاروں باغی ہوچکے ہیں حاضر ڈیوٹی جنرل اور جج وہی کر رہے ہیں جو سوویٹ یونین کے وقت ہوا تھا یہ وہ سازش ہے جس میں پاکستان کا نیوکلیئر پر پشتونوں اور پنجابیوں میں جنگ ہوگی۔ پورے ملک میں رنگ برنگی افریقی ملکوں کی طرح خانہ جنگی برپا ہوگی۔ تب مدد چلے گا بنچارہ، شاہد ابو کلام آزاد نے صحیح پیش گوئی کی تھی۔
٭٭٭٭٭