افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر پاکستان کے ممکنہ حملوں کی قانونی حیثیت پر بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہآصف نے دلیل دی ہے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہجب افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو یہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ داروں کوافغانستان کے لوگ تحفظ اور محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرتے ہیں۔ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے امکان کو مسترد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام فوج کی نہیں بلکہ پاکستان کے لوگوں کی ضرورت ہے،افغان حکومت تعاون پر آمادہ نہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو گا اور کسی کو نقل مکانی نہیں کرنا پڑے گی۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں پاکستان میں قیام امن میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔دوست ممالک سرمایہ کاری کے لئے محفوظ اور پر امن ماحول کا تقاضا کرتے ہیں جو ٹی ٹی پی خراب کر دیتی ہے۔سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹ پی صرف بد امنی میں ملوث نہیں بلکہ یہ پاکستان کے معاشی مفادات کو ہدف بنا رہی ہے اس لئے اس کے خلاف کارروائی از حد ضروری ہے۔تحریک طالبان پاکستان ایک مسلح گروپ ہے جو خود کو افغان طالبان کا اتحادی قرار دیتا ہے۔اس گروپ کا مقصد پاکستان میں سخت گیر شرعی ضابطوں کو نفاذ ہے جس کی خاطر یہ خون خرابے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔پاکستان میں مسلسل فوجی آپ]ریشنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند افغانستان میں روپوش ہو گئے۔ان لوگوں نے افغانستان کی حکومت کی نرمی کا فائدہ اٹھایا اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کیں۔یہ افغان طالبان کے اس وعدے کی خلاف ورزی ہے جو امریکی انخلا کے وقت انہوں نے افغان سرزمین کے حوالے سے دنیا سے کیا تھا ۔تحریک طالبان پاکستان نے سرحد پار سے حملے کئے۔۔حکومت کا خیال ہے کہ ماضی میں مذاکرات بے نتیجہ رہنے کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ۔وزیر دفاع کا انٹرویو پاکستان کی جانب سے ایک نئے فوجی آپریشن کے اعلان کے بعد نشر ہوا ہے اس آپریشن عزم استحکام کا مقصد نومبر 2022 کو یکطرفہ جنگ بندی کے خاتمہ کے بعد سے بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنا ہے۔ ٹی ٹی پی براہ راست تحریک طالبان افغانستان کا حصہ نہیں ہے جو اب ہمسایہ ملک افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ٹی ٹی پی کا مرکز سابق قبائلی علاقوں میں تھا، جو طویل عرصے سے القاعدہ سمیت عسکریت پسند گروپوں کا گڑھ تھا۔ ٹی ٹی پی پاکستان میں ہونے والے بہت سے خونریز حملوں کی ذمہ دار ہے، بشمول گرجا گھروں، سکولوں اور ملالہ یوسفزئی کو گولی مارنا، جو 2012 کے حملے میں بچ گئی تھیں جب کہ انہیں طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم سے روکنیکی کوششوں کے خلاف نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستانی افواج ٹی ٹی پی کو موثر طریقے سے ختم کرنے اور قبائلی علاقوں میں 2014 کے بعد سے فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس کی زیادہ تر اعلی قیادت کو ہلاک کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ٹی ٹی پی پاکستان میں کارروائیوں کے لئے بھارت سمیت پاکستان دشمن قوتوں سے مدد حاصل کرتی ہے۔پاکستان نے افغانستان میںتحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں پرپہلے بھی فضائی حملے کیے ہیں، جن میں مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے متعددعسکریت پسند مارے گئے ۔ تاہم ان انتباہی کارروائیوں پر ٹی ٹی پی کا رد عمل ٹ دھرمی پر مشتمل ہے ۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے متعلق شدید پروپیگنڈا سامنے آتا رہا۔پاکستان میں گزشتہ 18 ماہ کے دوران دہشت گردانہ تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اعداد و شمار کے مطابق صرف 2023 میں 700 سے زیادہ حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں تقریبا 1,000 افراد ہلاک ہوئے۔حکومت پاکستان نے متعدد وفود کابل روانہ کیے ، جن میں سیاسی قیادت اور انٹیلی جنس سربراہ کے دورے بھی شامل ہیں ۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان باہمی عدم اعتماد برقرار ہے۔یہ پاکستان کے تحمل اور برداشت کی علامت ہے۔ ٹی ٹی پی اور حکمراں افغان طالبان کے درمیان قریبی تعلق اور مشترکہ نظریہ پاکستان کے متعلق ان کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔آپریشن عزمِ استحکام کا مقصد اسلام آباد اور کابل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ملکی سلامتی کے خطرات اور افغانستان سے آنے والے مسلح جنگجووں کا مقابلہ کرنا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے علاقائی تعاون کے ذریعے “دہشت گردوں” کے خلاف کوششوں کو “تیز” کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اس مہم میں مقامی آبادی کے خدشات کو دور کرنے اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانے کے لیے سماجی و اقتصادی اقدامات بھی شامل بتائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جو انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرے۔اس ضمن میں کچھ قابل توجہ امور یہ ہیں کہ حکومت نے پہلے روز آپریشن عزم استحکام کی بابت بتایا کہ اسے ایپکس کمیٹی نے منظور کیا لیکن وزیر اعلی علی امین گنڈا پور نے اس کی نفی کی، پھر بتایا گیا کہ یہ صرف انٹیلی جنس بیسڈ ہو گا۔پھر نقل مکانی کے خدشات مسترد کئے گئے۔آپریشن کے مقاصد درست ہیں لیکن حکومت اس حوالے سے واضح نظر نہیں آتی ۔اس لئے حکومت کو ایک ہی بار اس سلسلے میں پوری وضاحت کر دینی چاہئے تاکہ قومی سلامتی اور سکیورٹی اداروں کے متعلق کوئی ابہام نہ رہے۔
٭٭٭