آپ کو یاد ہوگا جولائی دو ہزار سولہ جب فرانس کے جنوبی شہر نیس میں قومی دن پر جشن کے دوران ایک مسلمان ٹرک ڈرائیور نے ہجوم پر اپنا ٹرک چڑھا دیا تھا جس میں عورتوں ،بچوں سمیت چوراسی افراد کی جان گئی تھی تو ہیٹ کرائم کی لہر امریکہ تک بھی پہنچی تھی میں ان دنوں اسلامک سینٹر آف اوماہا کا جنرل سیکریٹری تھا سب سے بڑا نشانہ اسلامک سینٹرز ہی بنا تھا جس پر مشتعل نوجوان رات کے اندھیرے میں پتھر پھینک جاتے تھے پھر ایک رات اسلامک سینٹر میں لگے نائٹ ویژن کیمرے نے ایک نفرت بھرا منظر محفوظ کیا جس میں ایک مقامی سفید فام نوجوان سور کی چربی اسلامک سینٹر کے داخلی دروازے پر لٹکا رہا تھا میں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی ایف بی آئی کو شامل کیا اوماہا کے تمام لوکل ٹی وی چینلز اور اخبارات کو مدعو کر کے یہ سب مناظر فلمبند کروائے، لوکل اتھارٹیز کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ایجیٹیشن ترتیب دیا ڈاؤن ٹاؤن میں مظاہرہ بھی کیا ،دو ہزار سولہ کے الیکشن کے سلسلہ میں جب ہیلری کلنٹن اوماہا تشریف لائیں تو میں نے اس واقعہ کا زکر ان سے کیا اور کہا کہ اوماہا میں پانچ ہزار سے زائد مسلم ووٹرز ہیں آپ اس واقعہ کی مذمت کریں ،اپنی تقاریر میں مسلمانوں سے نفرت بارے بات کریں تو امریکہ بھر میں مقیم لاکھوں مسلم ووٹرز کو راغب کرسکتی ہیں اور انسانیت کا بھلا بھی ہوگا انہوں نے وعدہ کیا ۔ لندن کینیڈا میں جیتے جاگتے صحت مند چار پاکستانی نژاد مسلم کینیڈینز کو ایک یہودی دہشت گرد نے اپنے ٹرک کے ذریعے کچل دیا تو ہماری اوورسیز کمیونٹی کی طرف سے اس طرح کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا جو کہ ہونا چاہئے تھا یا جیسا دو ہزار سولہ میں فرانس میں کچلے گئے افراد کے لیے دنیا بھر میں دیکھنے کو ملا تھا چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اقوام متحدہ کے سامنے جا کر اس دہشت گردی کے خلاف ایک بڑا پرامن مظاہرہ کرتے ،جگہ جگہ مظاہرے ترتیب دیتے ،اخباروں ،ٹی وی چینلز پر ایک طوفان برپا کر دیتے لیکن افسوس کہ ہم سو رہے ہیں مانا کہ ہم امریکہ کینیڈا میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن آٹے میں اگر نمک نہ ہو تو ذائقہ بھی نہیں بنتا۔ ہمیں اپنا تشخص برقرار رکھنا ہوگا ہمیں باہر نکل کر دنیا کو بتانا ہو گا تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے ،یاد رکھیں اگر ہم اب نہیں نکلے تو پھر ہمیں یہ لوگ کوئی اہمیت بھی نہیں دینگے ،اگلی بار کوئی ہمیں بھی ٹرک سے کچل دے گا، ہم پْر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں ایک سیاہ فام جارج کو گولی مار دی گئی تھی تو امریکہ کیا پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، کیا چار انسانوں کا قتل اور وہ بھی ٹورانٹو ایریا میں اور وہ بھی نفرت کی وجہ سے کیا ماڈرن دنیا کو جگانے کی ضرورت نہیں ،کیا یہ دہشت گردی نہیں ؟بچہ اگر نہ روئے تو ماں دودھ بھی نہیں دیتی ۔ ہمیں نکلنا ہوگا ورنہ ہمارا حال بھی فلسطینی اور کشمیریوں جیسا ہو سکتا ہے عمران خان نے لندن واقعہ پر کینیڈین ٹی وی سے انٹرویو میں اسلاموفوبیا بارے کہا ہے کہ نفرت بھرے ویب سائٹ بند ہونے چاہئیں اور لوکل اتھارٹیز کو بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے اگر ہم اسی طرح سے سوتے رہے تو لوکل اتھارٹیز لے چکیں ایکشن، پر امن مظاہرہ اقوام متحدہ کے سامنے ہونا ازحد ضروری ہے جس میں لندن دہشت گردی کی پر زور مذمت ہو تاکہ دنیا جان سکے کہ دہشت گردی کا کوئی مسلک مذہب نہیں ہوتا اور ہم مسلمان بھی دہشت گردی کا شکار ہیں
حبیب جالب فرماتے ہیں
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انساں کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
لازم ہے کہ ہر شخص کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
٭٭٭