پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بھی حکومتیں ختم ہوتی رہی ہیں، نگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں ، نئے الیکشن سے نیا حکومتی اتحاد وجود میں آیا ہے لیکن جیسی صورتحال پاکستان میں اس وقت ہے ، ایسی پہلے کبھی نہیں تھی، انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی ابتر ہوچکی ہے ، نامعلوم افراد کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ، ایسے میں صحافی تک محفوظ نہیں ، ان کو گھروں سے اُٹھایا جا رہا ہے ، معروف صحافی ، اینکر پرسن عمران ریاض بھی 5 ماہ لاپتہ رہنے کے بعد بالاآخر گھر واپس آ گئے ہیں لیکن نہ پولیس نے بتایا ہے اور نہ واپس آنے والے اینکر نے خود، ان کے وکیل یا اہل خانہ نے یہ بتانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ وہ کہاں تھے اور اگر انہیں اغوا کیا گیا تھا تو وہ کس کی تحویل میں تھے۔ واقعات کی گرد میں یہ واقعہ بھی بھلا دیا جائے گا اور کچھ عرصہ بعد کوئی نیا سانحہ لوگوں کی توجہ حاصل کر لے گا۔ عمران ریاض کو اپنے مقبول یوٹیوب چینل اور تحریک انصاف کی پر زور حمایت کی وجہ سے بہر حال ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ پولیس میں ان کے اغوا کی رپورٹ درج کروائی گئی تھی اور لاہور ہائی کورٹ نے مئی سے لے کر اب تک اس معاملہ پر متعدد سماعتیں کیں اور پولیس کو بار بار عمران ریاض کو بازیاب کروانے کا نوٹس دیا۔ گزشتہ بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے پنجاب پولیس کو آخری موقع دیتے ہوئے عمران ریاض کو 26 ستمبر تک بازیاب کروانے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے، یہ مہلت ختم ہونے سے ایک دن پہلے عمران ریاض اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔ اعلیٰ عدلیہ بھی دوسرے درجے کے افسروں کو ڈرانے دھمکانے اور سخت کارروائی کی دھمکیاں دینے کے بعد اب یہ تسلیم کرچکی ہے کہ اس ملک میں کچھ ایسے گرے ایریاز ہیں، جن پر ملکی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لیے شاید عدالتوں کا اس پر خاموش رہنا ہی بہتر رویہ ہے۔ شاید عمران ریاض کے معاملہ میں بھی لاہور ہائی کورٹ کے فاضل ججوں کو ایسی مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرنا پڑے۔اس سوال کا جواب جانے بغیر یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستانی نظام میں کب اور کیسے کوئی اصلاح ممکن ہوگی۔ یہ سوال اس ملک کے شہریوں کی بنیادی آزادیوں کے حوالے سے ہے۔ اسی حق کی دہائی دیتے ہوئے سیاسی جماعتیں ملک میں انتخابات کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے امور مملکت چلانے کے اہل سمجھے جائیں۔عمران ریاض کی رہائی پر ان کے وکیل میاں علی اشفاق نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اللہ کے خاص فضل، کرم و رحمت سے اپنے شہزادے کو پھر لے آیا ہوں۔ مشکلات کے انبار، معاملہ فہمی کی آخری حد، کمزور عدلیہ و موجودہ غیر موثر سرعام آئینی و قانونی بے بسی کی وجہ سے بہت زیادہ وقت لگا۔ ناقابل بیان حالات کے باوجود اللہ رب العزت نے یہ بہترین دن دکھایا۔ اس وقت صرف بے پناہ شکر ۔ اس پیغام کو عام فہم لفظوں میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کچھ وعدے کر کے عمران ریاض کو رہا کروا لیا گیا ہے جس پر اللہ کا شکر ہے لیکن ملک کا قانون اور عدالتیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ ایک ظلم کے خلاف کسی شہری کی داد رسی کرسکیں۔ ملک کے شہری اگر حالات کی اس تفہیم کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں تو فیصلے کرنے والے عناصر کو جان لینا چاہیے کہ اداروں، حکام اور نظام پر عوام کا یقین متزلزل ہو چکا ہے۔ یہ ایک بیان جو میرٹ کی بنیاد پر تو کوئی ناجائز یا اشتعال انگیز نہیں ہے کیونکہ اس میں صرف اتنی بات کی گئی ہے کہ ان عناصر کی باز پرس ہونی چاہئے جو ملک کے فعال نظام اور آئینی حکومت کو کمزور کر کے مرضی کی حکومت لانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے تھے۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو سانحہ 9 مئی کے بعد تواتر سے فوج کی طرف سے سننے میں آتا رہا ہے کہ ان عناصر کو معاف نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کیے تھے خواہ ان کا تعلق کسی طبقے اور مرتبے سے ہو۔ کسی ایک ملک میں دو افراد یا طبقوں کے لئے دو مختلف قانون نہیں ہوسکتے اگر فوج و عدلیہ اپنے اپنے سابقہ لیڈروں کو بچانے کے لئے ڈھال کا کام کرتی رہے گی تو مان لینا چاہئے کہ ایسے ادارے اور نظام اصلاح کے قابل نہیں رہے۔ البتہ یہ اصول عمومی طور سے تسلیم کرنے کی ضرورت ہوگی کہ الزام کی زد پر خواہ کوئی بھی ہو، اسے اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جائے جب تک الزامات کسی مناسب قانونی فورم پر شواہد و دلائل کے ساتھ ثابت نہ ہوجائیں۔ یہ حق زبردستی محبوس رکھے گئے صحافی عمران ریاض کو لاپتہ کرنے والوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے اور اگر کوئی سیاست دان سابق آرمی چیف یا چیف جسٹس کے خلاف کسی زیادتی کا الزام عائد کرتا ہے تو انہیں بھی مناسب قانونی فورم پر اپنا دفاع کرنے اور نام پر لگے ہوئے داغ کو صاف کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ درحقیقت ایسا موقع ملنے سے الزامات کی آڑ میں جھوٹی سچی افواہیں عام کرنے کا طریقہ ختم ہو گا اور متعلقہ افراد اور ان اداروں کی شہرت بحال ہو سکے گی جن سے وہ وابستہ رہے ہیں، تاہم پاکستانی سیاست میں یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے چیف کی حفاظت کرے گی۔ چاہے وہ کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو، اسے مکمل فوجی اعزازات دیے جائیں گے۔ وہ کسی باہر والے کو (شہری)اپنے فوجیوں کے ٹرائل کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس مرحلے پر اگر آپ انتقام کے عمل میں پھنس گئے تو آپ حکومت نہیں کر پائیں گے اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو پھر فوجی بغاوت ہو گی ۔
٭٭٭