کیا ہم ایک باشعور قوم ہیں؟

0
102
کامل احمر

کوئی پندرہ سال ہونے کو آئے، محترم طاہر خان جو ٹرائی اسٹیٹ ایریا میں بہت خوبیوں کے مالک کے علاوہ ایک اعلیٰ پایہ کے ناظم کے طور پر جانے جاتے ہیں نے اپنی تنظیم”ڈائیلاگ” کے لئے پروگرام کرایا تھا۔کونسا طرز حکومت قوم کے لئے اچھا ہے”اور سب ہی کو تین تین منٹ بولنے کی دعوت دی تھی۔نیویارک کے دانشور، سیاسی شعور رکھنے والے بیورو کریٹس اور مذہبی شخصیات کے علاوہ صحافی حضرات بھی تھے، میرے خیال میں ان میں ہم نووارد تھے، طاہر خان نے ہمارا نام لیا تو ہم حیران تھے کہ ہم تو مقرر نہیں ایک لکھاری ہیں اور یہ بھی40کی دہائی کی بات ہے سوچا کیا کہیں کیا نہ کہیں تھوڑی بہت تاریخ سے واقفیت تھی او رتھوڑا بہت پیغمبروں کے بارے میں جانتے تھے۔پیارے رسول حضرت محمد مصطفٰے رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت عمر رضی اللہ دل اور دماغ میں تھے۔سوچتے ہوئے کہ کیا کہنا ہے پاکستان میں آمرانہ طرز حکومت سے جمہوری نظام کی ناکامیابیاںدیکھ کر آئے تھے۔اس بڑے ملک میں جہاں جمہوریت کا بول بولا تھا اور امریکن بے حد پرسکون بلاتعصب امن پسند اسلامی طورطریقے سے ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔دوکاندار ایماندار تھے سیاست دان عوام کی بھلائی کے بل پیش کرتے تھے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا جہاں سے آکر آباد ہونے والے بے فکری اور مالی طور پر آزاد زندگی گزار رہے ہیں یہ تھا ایک ڈھانچہ جو دہائیوں پہلے یہاں کے سیاستدان بنا گئے تھے اور ان سب اچھائیوں اور قانون پر عملدرآمد کے لئے سپریم کورٹ بنایا گیا تھا جو کسی کی بھی دھاندلی کو روک سکتا ہے۔ ہم مائک پر آئے اور چند الفاظ میں اپنا متن ظاہر کردیا کہ”ہم سے پہلے جو آئے ان کو سناد ورائے ہیں ہمارا کہنا دونوں کے لئے ہے کہ اگر حکمران کے دل میں خوف خدا ہو اور ضمیر کی آواز پر چلے تو آمر بھی اچھا اور جمہوریت بھی اچھی”لوگوں نے دھیان نہ دیا لوگ تو کسی کی بات پر دھیان نہیں دیتے، آدھی صدی پہلے جو دنیا تھی اب وہ نہیں ہے۔علم سے ذہن بھی بنتا ہے اور معاشرہ میرے رسول نے کہا کہ ”علم حاصل کرو چاہے اسکے حصول کے لئے چین جانا پڑے”مراد یہ تھی کہ دنیا کے کسی کونے میں علم تلاش کرو سوچتے ہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرو۔آج کا انسان صرف اور صرف دولت حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے ہمارے مولوی حضرات نے لوگوں کو جنت کی طرف لگا دیا ہے وہ حضور صلعم کی تعلیم پر زور نہیں دیتے ہمارے مولانا طارق جمیل اپنے ہر بیان میں جنت کا ذکر کرتے ہیں ان کے رویوں(جھوٹ، منافقت، حسن سلوک) کا ذکر دبے لہجے میں ہوتا ہے۔بات ہو رہی تھی طرز حکومت کی کچھ عرصے پہلے سقراط کو پڑھ رہے تھے حیران رہ گئے اس نے طرز حکومت اور حکمران کے بارے میں کچھ ایسا ہی کہا تھا۔ضمیر کا ذکر اس لئے نہیں تھا کہ ہر کسی کے پاس ضمیر تھا اس کا کہنا تھا مجھے اعتراض ہے کہ حکمران خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔(اسے خدشہ تھا کہ عوام حکمران کو خدا نہ سمجھو بیٹھیں اسکے لاکھوں چاہنے والے تھے جو حکومت کے لئے خطرہ بن سکتے تھے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ نہ ہی جمہوریت اور نہ ہی آمرانہ طرز حکومت عوام کی بھلائی اور بہتری کرسکتی ہے وہ ہی اچھی ہے جن کے چلانے والے بصیرت(سیاسی) قابلیت، اخلاق اور علم کی دولت سے مالا مال ہوں اور اپنے ہم عصروں کو اور مخالفین کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ناواقفیت ایک جہالت ہے۔اور علم ایک طاقت اور اپنے ضمیر کی آواز پر چلتے ہوئے سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر اس وقت اور آنے والے وقتوں میں انسان کو جگا دیا تھا اس نے حق کے راستے میں چلتے ہوئے فرار پر موت کو ترجیح دی اور زندہ ہے۔
ہمارا اشارہ پاکستان کے تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات کی طرف ہے اور یہ دیکھ کر کوفت ہوتی ہے کہ سارے چور اچکے اور ان کی اولادوں کے علاوہ انکے غلام ذہنیت چاہنے والے جو نظر نہیں آتے ان کے ساتھ ہیں۔اور کہہ رہے ہیں جمہوریت خطرے میں ہے سندھ کا ایک زرداری برانڈ عیاش اور ڈاکو کھلم کھلا عمران خان کو دھمکی دے رہا ہے۔میڈیا پر آکر”غنڈہ گردی بند نہ کی تو جیالوں نے بھی”بنی گالہ”کا راستہ دیکھا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر زرداری کا بچہ پچھلے کئی دنوں سے عمران خان پر تابڑ توڑ لفظی حملے کرکے کہہ رہا ہے۔”ہمOICکا اجلاس نہیں ہونے دینگے عمران طالبان کا وزیر خارجہ بنا ہوا ہے ہمت ہے تو باتیں چھوڑو اور اسمبلی میں آکر مقابلہ کرو۔ساتھ ہی فوج کی اور عدلیہ کی مدد مانگ رہا ہے کہ وہ نوٹس لیں جس کو اس کا باپ دھمکی دے چکا ہے جنگ کرنے کی اور چیلنج کرکے بھاگ گیا تھا دوبئی جنرل راحیل سعودیہ پدھار گئے تھے۔بغیر جواب دیئے کوئی تو بات تھی کہ ایک ڈاکو پاکستان کے جنرل اور کمانڈر کو دھمکی دے رہا تھا۔اور ان کا ضمیر کیوں نہیں جاگا کیا یہ ملک کے امن وعامہ کے لئے چیلنج نہیں تھا جس کی نگرانی ہمارے جنرلوں کو کرنی ہے اور اس دن کے بعد سے جنرلوں کا کردار بھی سامنے آگیا آج جو صورتحال ہے وہ ان کی چشم پوشی کی ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟خدا جانتا ہے ہماری مراد مارشل لاء لگانے سے نہیں اسمبلی کا اجلاس4دنوں کے لئےOICکانفرنس کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ہے پھر مخالفین کو کس بات کی جلدی ہے قانون کی مدد مانگ رہے ہیں یہ ہی لوگ ہیں جنہوں نے پورے ملک میں ڈاکے مارے ہیں عوام کو بے حال کیا ہے اور آج قانون کا رونا روتے ہیں جس پر عملدرآمد کبھی نہیں ہوا۔
عمران خان کے لئے کہتے چلیں کہ وہ ہزار ضدی، بیوقوف ہٹ دھرم اور دوستوں سے منہ موڑنے والا سہی لیکن پھر بھی مخالفین سے بہتر ہے جو افراتفری پچھلے 33سال بلکہ پچھلے78سال میں ہوئی ہے۔جو لوٹ مار، نوازشریف اور زرداری کے دور میں ہوئی ہے جس کا خمیازہ ملک اور قوم بھگت رہی ہے۔بھلا عمران خان ساڑھے تین سال میں کیا کرسکتا ہے سارے پاکستانی جانتے ہیں مگر وہ چوروں اور ڈاکوئوں سے وفاداری دکھا رہے ہیں یہاں بیٹھ کر بھی وہ ان ہی کے گن گاتے ہیں دال میں کالا ہے ان ہی کے بٹھائے مہرے میں آپ ترکی کو دیکھیں جہاں آپ کو اسلام بھی نظر آئے گا اور اسلام کا طرز حکومت بھی کہ پچھلے بیس سال میں یہ ملک برابر ترقی کر رہا ہے پچھلے ہفتے اردگوان نے1915میں بنے یورپ کو ایشیا سے ملانے والے1.25میل لٹکے برج کو نئے سرے سے چھ بلین یورو کی لاگت اور5ہزار مزدوروں کی مدد سے بننے والے کو ناکلی برج کا افتتاح کیا۔ترکی آج بھی خود کفیل ہے اور2023کے بعد وہ آزاد ہوگا مزید ترقی کے لئے اردگوان کے طرز حکومت کی مدد سے اور وجہ وہ ہی ہے کامیابی کی۔خوف خدا اور ضمیر کی آواز جو پاکستان میں ناپید ہے اور آہستہ آہستہ امریکہ میں آنے والے وقت میں عوام کو مشکلات کا سامنا ہوگا ہر چند کہ اس ملک کا انفراسٹرکچر اور قانون کی عملداری ملک کو سہارا دیئے ہوئے ہے یہاں کے صدارتی نظام پر دو پارٹیوں کا راج ہے جن کی خارجہ پالیسی سے عوام(امریکی) کو نقصان پہنچ رہا ہے قانون کی خلاف ورزی اور قانون سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے پاکستان کا نمبر اوپر ہے۔لاقانونیت، اقربائ، تعصب، بے ایمانی اور جہالت میں سندھ، بلوچستان ٹاپ پر ہیں۔آنے والا وقت ہمیں تو روشن نظر نہیں آرہا کہ جب تک ہم اللہ اور رسول کی رسی کو اور ایک امت نہیں بنتے خواب خواب ہی رہینگے!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here