ملک اور قوم کیسے ترقی کرتی ہے۔ اس کا صرف ایک فارمولا ہے یا طریقہ ہے کہ قوم کو ایک اچھا رہبر مل جائے۔ جسے ملک کی اور قوم کی فکر ہو۔ اور ایسا خلیفہ وقت حضرت عمر کے دور میں ہوا اور اس صدی اور اس سے پچھلی صدی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ جن ملکوں کو اچھے رہبر ملے وہ آج ترقی کا عروج دیکھ رہی ہیں۔ لیکن رہنما کے ساتھ ضروری ہے کہ عوام ایک ہوں۔ ایک زبان ہوں۔ یہاں مسلمان عیسائی ہندو، پارسی، احمدی اور یہودی کی شرط نہیں صرف اپنے ملک سے وفا شعاری کا جزبہ ہو یہ بھی ضروری ہے کہ اس ملک کی فوج صرف اور صرف سرحدوں کی نگرانی کرے عوام دن رات ایک کردیں۔
آئیں اب چلتے ہیں تاریخ کی طرف جو آپ کے سامنے ہے بھولے نہیں ہونگے دوسری جنگ عظیم میں جاپان تقریباً تباہ ہوگیا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد جب جنگ کے بادل ہٹے جاپان نے سر اٹھانا شروع کیا اور دشمنوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا کہ جنگ کی بجائے معاشی اور صنعتی ترقی کی طرف جُت گئے۔ دشمنوں سے ہی قرضہ لے کر تعمیر نو شروع کی اور1970تک آتے آتے وہ کھلونوں سے لے کر ٹرین، ہوائی سفر، برج بنانے کی طرف لگ گئے۔ اور مسلسل لگے رہے اور ہیں جس کی تازہ مثال ٹوکیو سے سمندر پار اپنے شمالی علاقے ہوکیدو کے لئے33.4لمبی سمندر کے نیچے دو طرح کی پٹریوں کی ٹرین چلا کر کھول دیا اور بہت کم وقت میں یعنی صرف٢٤سالوں میں اپنے پیسوں سے مکمل کیا۔ یہ دنیا کی پہلی سرنگ ہے جو پانی کے نیچے ساڑھے چودہ میل کھودی گئی ہے۔ اور اب جاپان جنوبی کوریا کے درمیان سمندر کے نیچے ایک اور لمبی سرنگ بنائی جارہی ہے۔ جاپان نے تیز رفتار بلٹ ٹرین اور کیمرہ سے کھلونوں تک کا میدان جرمنی سے ہتھیا لیا اور ساتھ ہی کاروں کے میدان میں بھی سستی کاریں بنا کر دنیا بھر میں مقبولیت کا سہرہ اپنے سر لے کر جرمنی کو محدود کردیا اور اب جاپان تیز رفتار ٹرینوں کا مقابلہ چین سے کر رہا ہے۔ چین نے بھی ہر میدان میں ہوشربا ترقی کی ہے اور اس میں ایک بات مشترک ہے۔ دن رات کی محنت اور رہنمائوں کی درست اور ایماندرانہ رہنمائی۔ چین نے جرمنی، جاپان، اسپین، اٹلی، فرانس کو600کلومیٹر فی گھنٹہ مطلب373میل کا فاصلہ ایک گھنٹہ میں طے کرنے والی ٹرینوں کا آغاز کردیا ہے کہ چینی عوام ہوائی جہاز کے سفر کی جگہ ٹرینوں کے ذریعے آمدورفت کر رہے ہیں۔ ویسے تو پورا یورپ اس میں شامل ہے چین کو آبادی ملے صرف73سال ہوئے ہیں ہم نے صرف کا لفظ پاکستان کو ذہن میں رکھتے ہوئے استعمال کیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، چلئے آئیں۔ بنگلہ دیش کا بھی ذکر کرتے چلیں جس نے پاک فوج اور سیاستدانوں سے1971میں نجات پائی۔ انہوں نے بھی سب کچھ بھلا کر آمدورفت کی سہولت کی فراہمی کو ذہن میں رکھتے ہوئے 50سال میں تین بڑے پروجیکٹ مکمل کئے۔ پچھلی اکتوبر میں شیخ حسینہ نے کرنافلی سے سمندر کے نیچے ایک9.4کلومیٹر لمبی سرنگ ٹرکوں اور کاروں کے لئے کھول کر ایک نئے ترقی یافتہ دور کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے3.8میل لمبا پدما برج بنا کر دنیا کو حیران کیا تھا۔ شیخ حسینہ نے ہی حضرت شاہ جلال(صوفی عالم ولی اولیائ) انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے تیسرے بڑے ٹرمنل کو بڑھا کر دنیا بھر سے آنے اور جانے والے جہازوں کے لئے سہولت فراہم کردی۔ نئے ٹرمنل میں115چیک ان کائونٹر،66روانگی اور 59آمد کی لوکیشن فراہم کی گئی ہیں۔ آپ گوگل کریں تو پاک فوج کے لئے نہایت ہی متعصبانہ بیان ملے گا کہ پاک آرمی نے تباہ شدہ ملک چھوڑا تھا یہ ضرور ہے کہ ایوب خان کے زمانے میں ہی کچھ کام ہوا تھا اور ہم اس کے گواہ ہیں کہ طلباء وفد کے ساتھ ڈھاکہ گئے تھے اور نیا ریلوے اسٹیشن دیکھ کر خوشی ہوئی تھی۔ لیکن قوموں کو ظلم اور زبردستی پسند نہیں۔ گوگل کہنا ہے1971سے پہلے وہاں کچھ نہیں تھا لیکن جوٹ اور کرنافلی پیپر ملز کیا ہندوستان نے بنائے تھے جو آج بھی بنگلہ دیش کے لئے زرمبادلہ کا ذریعہ ہیں۔ اور اب ہم جب پاکستان کو دیکھتے ہیں تو گوگل نہیں لکھتا کہ آرمی اور کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کو تباہ وبرباد کیا ہے۔ روس نے جو کراچی میں اسٹیل ملز بنا کر دیا تھا وہ زنگ آلود پڑا ہے اور لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں کچھ نہ کرنے پر، چین نے کرپٹ سیاستدانوں تاجروں اور جرائم پیشہ کے سروں میں پستول کی گولیاں اتار کر ملک کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ کیوبا ایک چھوٹا سوشلسٹ ملک ہے لیکن وہاں بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں کرائم ریٹ3.6ہے۔ اور ہوانا جیسے بڑے شہر میں کوئی پولیس نظر نہیں آئے گی مطلب یہ کہ قانون کی بالادستی اور ایک ایماندار رہنما وہاں فیڈرل کا سٹرویہ دو چیزیں چھوڑ گیا ہے۔ بلیک مارکٹنگ اور قیمتوں کے بڑھاوے پر پابندی تمام چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر کیں اب کیوبا سیاحت میں بڑھ رہا ہے اور امریکہ سے وہاں سیاحت کے لئے جانا سب سے آسان ہے اسے ترقی کہتے ہیں۔ اور پاکستان میں کیا ہوا پچھلے50سالوں میں کہ ٹرین کی پٹریاںاکھاڑ کر ریلوے اسٹیشن بند کئے گئے۔ کراچی ایئرپورٹ کو توسیع کی جگہ دھیرے دھیرے اسے اُجاڑ دیا گیا کہ اب وہاں صرف تین چار ایئرلائن ہی آتی ہیں۔ اس میں زرداری، ایم کیو ایم اور فوج کا چولی دامن کاساتھ ہے اور جاری ہے حیدر آباد سندھ میں ابھرے پاکستان کے ایک مشہور شاعر جنہیں بہت کم لوگ ہی جانتے ہونگے کے دو اشعار سنتے چلیں !
یہ قوم مردہ پرستی کے فن میں ماہر ہے
یہ مجھ کو روئے گی کل، آج اس کو رولوں میں
اور دوسرا شعر ہماری بہادر افواج کے لئے ہے۔
ہر آمر وغاصب کی تقدیر یہ ہی دیکھی
بندوق سے آتا ہے، بندوق سے جاتا ہے
ایسا پاکستان میں کبھی نہیں ہوا یہ باری باری آئے اور آتے رہیں گے یہ روبوٹ ہیں جو صرف امریکہ کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں تقریر سے پہلے بسم اللہ اور جانے کیا کیا کہتے ہیں مگر ان کے سارے کام شیطان مردود کے سے ہیں اسے ہم نے دیکھا نہیں لیکن وہ آج ہمارے ملک کے ہر رہنما اور ہر ہر فوجی افسر کے دل ودماغ میں سرایت کر چکا ہے۔ انہیں بندوق کے ذریعے ہی جانا ہے لیکن پاکستان میں ممکن نہیں کہ سارے، جنرلز، کرنلز، بریگیڈیرز ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں بندھے ہیں سیاستدان سے مقابلہ ہے اور عوام کے لئے کوئی راستہ نہیں کہ کوئی چی گوارا اٹھے۔ منڈیلا نہیں جو قید میں ہے امریکہ کے ایما پر۔
٭٭٭