پاکستان کا مستقبل قریب!!!

0
15

اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عقل و فہم عطا کی ہے مگر کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے عام آدمی کی نسبت انسان کی عقل و فہم، افق شناسی اور تجربات سے سیکھنے کی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ انہی شعبوں میں سے میڈیا ایک ایسا شعبہ ہے جس سے تعلق رکھنے والوں کی ایک خاص نظر اور منفرد انداز میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ شعبہ صحافت میں خواہ کوئی اخبار شائع کرتا ہو، ڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا سے تعلق رکھتا ہو ان کی گفتگو اور بات چیت سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آئندہ حالات کونسا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ میرا تو ذاتی تجربہ ہے کہ میں اسد چوہدری، محسن ظہیر، میاں عظیم، میاں فہیم اور آصف جمال جیسے نامور صحافی شامل ہیں سے ملاقات اور گفت و شنید سے ہم جیسے صحافت کے طالب علموںکو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان میں شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والی ایک نامور اور تجربہ کار شخصیت افضل بٹ صاحب پاکستان سے تشریف لائے ۔ افضل بٹ صاحب PFUG کے سابق صدر اور عرصہ دراز سے صحافتی یونین کے ہر محاذ پر صحافت کی جنگ لڑنے والے سپاہی ہیں۔ نیویارک کی نامور سیاسی و سماجی شخصیت ڈاکٹر اعجاز کے توسط سے افضل بٹ کے ہمراہ نیویارک کے صحافیوں کی ایک دوستانہ نشست ممکن ہوئی۔ہم اوورسیز پاکستانی تو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ اس طرح کے سینئر صحافی آئیں اور ہماری پیاس بجھائیں۔ اس نشست میں پاکستان کے موجودہ حالات اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم اور سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ افضل بٹ ایک ذہین، دور اندیش اور محب وطن صحافی ہیں انہوں نے پاکستان کا موجودہ مثبت پس منظر پیش کیا ہے۔ اس سے امید ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ایک بار پھر ٹریک پر واپس آسکتی ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ افضل بٹ جیسے سینئر صحافیوں جنہوں نے بڑ ی تعداد میں حکومتوں کو آتے جاتے دیکھا ہے ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں کیونکہ ایک سینئر صحافی صرف لکھاری یا صحافی نہیں ہوتا بلکہ وہ کئی سیاستدانوں، بزنس مینوں اور دیگر شعبوں پر گہری نظر کا حامل شخص ہوتا ہے۔ ان کے ماضی کے تلخ اور سبق آموز تجربوں سے پاکستان کے مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے۔ دریں اثناء پاکستان کے موجودہ حالات اور خاص طور پر حکومت کے آئندہ کے لائحہ عمل ،طرز حکومت اور پالیسیوں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ جس میں قابل ذکر معاملات مثلاً اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین تعلقات کے اتار چڑھاؤ، میاں نواز شریف کی واپسی بارے کھل کر بات کی گئی ۔ سب سے اہم اور قابل ذکر پیش رفت تو 9مئی کے واقعات کے بعد سے ہوئی ۔ یاد رہے کہ نو مئی بارے عموماً عام خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے GHQ پر چڑھائی اور حملہ کیا مگر ہمارا مؤقف یہ ہے کہ عمران خان کا فوج سے محاذ آرائی کا قطعاً کوئی پلان نہیں تھا ۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو تھا کہ کسی بھی طرح جی ایچ کیو یا فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا جائے بلکہ پلان صرف یہ تھا کہ پاکستان بھر میں عمران خان کی گرفتاری کیخلاف وسیع پیمانے پر دھرنے دیئے جائیں۔ لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد ذمہ دار لیڈرشپ کے فقدان کی وجہ سے عوام آؤٹ آف کنٹرول ہو گئے اور ملک بھر میں توڑ پھوڑ کا آغاز ہو گیا۔انہی حملوں اور توڑ پھوڑ کے نتیجے میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی تمام لیڈرشپ باغی قرار دے کر پابند سلاسل کر دی گئی۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ اس دوران انڈین خفیہ ایجنسی ”را”نے بھی کھل کر اپنا کام دکھایا اور”را” کے پلان کے مطابق اگر کچھ لاشیں بھی گر جاتیں تو معاملہ مزید زور پکڑ جاتامگر فوج نے عقل مندی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور عوام کے ساتھ دو بدو ہونے اور گولی چلانے سے اجتناب کیا اور حالات کو مزید خرابی کی جانب جانے سے روکنے میں دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ فوج نے عوام پر گولی چلانے کی نوبت نہ آنے دی جس سے حالات مزید خراب نہ ہو سکے۔حاصل گفتگو یہ کہ پاکستان میں سیاسی و اقتصادی مسائل کا حل صرف اور صرف منصفانہ اور آزاد انتخابات ہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنیوالے انتخابات میں حکومت یا فوج کیا گل کھلاتی ہے۔ عمران خان کو قید میں رکھ کر الیکشن کرواکر پاکستان کی بدنامی کا سہرا اپنے سر سجالیتی ہے یا تمام پارٹیوں کو ان کے انتخابی نشان دے کر آزاد الیکشن کروا کر دنیا میں نیک نامی کماتی ہے تاکہ پاکستان میں ایک بار پھر جمہوریت کو پامال کرکے پاکستان کو مزید پستیوں کی جانب دکھیلنے سے اجتناب کرتی ہے۔ ہمارا اذاتی تجزیہ بھی یہی ہے کہ فوج سیاسی منظر عام سے مکمل آؤٹ ہو جائے اور ملک کو محب وطن سیاستدانوں پر چھوڑ دے تو پاکستان دوبارہ ٹریک پر آسکتا ہے۔ فوج کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ پڑوسی ممالک کی طرح روزناموں، اخباروں اور ٹی وی چینلز سے اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ عوام انہیں سرحدوں کی حفاظت پر کامیاب دیکھنا چاہتی ہے نہ کہ اپنی ہی عوام پر چڑھائی کرکے فتح کا جھنڈا لہرانا کامیابی ہے۔ عوام مارشل لائ، سول ایڈمنسٹریشن، فوج کی حکومتی اور سیاسی معاملات میں مداخلت سے تنگ آچکے ہیںاور آج کے نوجوان تو ہمارے بڑے بزرگوں کی بھارت سے ہجرت کرنے کو ہی المیہ اور غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی و سماجی، معاشی حالات کی زبوں حالی کی وجہ سے لاکھوں شہری پاکستان سے مڈل ایسٹ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں چاہے وہ قانونی طریقہ اختیار کریں یا پھر غیر قانونی طریقے ۔ اکثر غیر قانونی راستہ اختیار کرنیوالوں میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے مگر ہمارے ارباب اختیا ر کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کچھ تو جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ منزل پر پہنچ تو گئے مگر اپنے وطن اور اپنے پیاروں سے جدائی کے غم کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی بنیادی ضرورتوں کی خاطر پردیس میں مشکلات اٹھانے کے علاوہ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ وہ دن رات محنت کرکے اپنے پیاروں کی دیکھ بھال کیلئے اپنی محنت کی کمائی پاکستان بھیجتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اگر اپنے آپ کو اس قدر ذہین اور قابل فہم سمجھتی ہے تو فوجی فاؤنڈیشن جیسے مزید کئی ادارے قائم کر سکتی ہے جس سے پاکستانی عوام کی اکثریت کی فلاح و بہبود کے کام ہو سکیں اس سے عوام میں فوج کیلئے نفرت کی بجائے ان سے محبت میں مزید اضافہ ہو گا اور ان کی گرتی ساکھ کو بھی سہارا ملے گا اور پاکستان بھی خاطر خواہ ترقی کرے گا۔ انشاء اللہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here