پاکستان میں تاحیات نااہلی کا معاملہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے منشا کے مطابق حل کیا جا رہا ہے۔۔۔ کیا سیاست دان سمجھتے ہیں کہ تاحیات نااہلی سے انہیں نجات مل گئی ہے، تو یقینا یہ ان کی غلط فہمی ہے، جس میں پاکستانی سیاست دان گزشتہ کئی دہائیوں سے مبتلا ہیں۔۔۔۔ پاکستان میں جب تک اداروں کو ان کی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی عادت نہیں پڑتی، ان عدالتی فیصلوں کا وقار وقتی طور پر ہی بلند رہے گا۔۔۔۔
پانچ تک نااہل رہنے کے بعد مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے مالی بانی جہانگیر ترین کو انتخابات میں حصہ لینے کی جہاں اجازت ہوگی وہاں پاکستان تحریک انصاف کے پابند سلاسل سربراہ عمران خان بھی اس فیصلے سے مستقبل میں ضرور مستفید ہوں گے،،، اور اس کے بعد ایک لا تعداد سلسلہ ہے۔۔۔۔۔ لیکن آج میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ بن کر سوچوں اور میری سوچ یہ کہہ رہی ہے کہ جس ملک میں گھڑی چوری، اقامہ رکھنے اور اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہلی ہو جاتی ہے وہاں مستقبل میں اس طرح کے مقدمات قائم کرنا کون سا مشکل کام ہوگا۔۔۔ یعنی کہ اب سیاست دانوں میں یہ شرط لگا کرے گی کہ ائندہ انتخابات میں کون حصہ لے سکے گا اور کون نہیں۔۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کو صرف اتنا ہی کرنا ہوگا کہ انتخابات سے قبل کسی پر مرغی چوری کا مقدمہ بنا کر اس پر فرد جرم عائد کروانی ہے اور اس کے بعد وہ سیاست دان پانچ سال کے لیے میدان سیاست سے باہر ہو جائے گا۔۔۔۔۔ یعنی اب ہر انتخابات کے موقع پر سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں خوب بلیک میل ہوا کریں گے۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں نا اہلی کا مسئلہ عدالتی فیصلوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ائین اور قانون پر من عن عمل کرنے کی ضرورت ہے،،،، مگر پاکستان میں ائین اور قانون اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی وہ بلی ہے جس کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی جرات کسی میں نظر نہیں آتی۔۔۔۔ آج جسٹس قاضی فائز عیسی ماضی کے فیصلے بدل رہے ہیں،،، جس میں بلا شبہ بے حد تضاد بھی تھا اور تعصب بھی واضح نظر آتا ہے مگر فیصلوں میں تضاد اور تعصب کا مصالحہ اب بھی کہیں نہ کہیں عدالتی فیصلوں میں لگایا جا رہا ہے اور مستقبل میں انے والے چیف جسٹس سے پھر آپ کیا امید رکھ سکتے ہیں۔۔۔ غرض جب تک اداروں کو ان کے آئینی اور قانونی فرائض سے شناشائی نہیں ہوتی ہم اقوام عالم میں تاحیات نااہل قوم کے طور پر ہی یاد رکھے جائیں گے۔۔
٭٭٭