قارئین کرام، گزشتہ کالم پاکستان کا مستقبل میں ہم نے ایک جملہ تحریر کیا تھا، عمران مخالف یہ تماشہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک الیکشن کا ڈھونگ یا جھرلو مکمل نہیں ہوتا”۔ ہمارے اس اندازے یا تجزئیے کی توثیق گزشتہ ہفتہ کے واقعات و حالات سے واضح نظر آرہی ہے۔ جمعہ کے روز عمران خان کے دو کیسز میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے سائفر کیس میں ضمانت اور الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی درخواستوں پر عمران خان و پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تو ریاستی مقتدرین کو پسند نہ آیا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر منفی اثر ڈالنے کیلئے جمعہ کی شب 9بجے الیکشن کمیشن نے انٹر اپارٹی الیکشن پر محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کیساتھ بلے کا نشان واپس لینے کا اقدام بھی کر دیا۔ جمعہ کی شب فیصلے کا اجراء خصوصاً اس حقیقت کے تناظر میں کہ آئندہ کے تین روز چھٹیوں کے ہونگے واضح مقصد نظر آتا تھا کہ عمران اور پی ٹی آئی کو کسی فورم سے فوری ریلیف نہ مل سکے۔ ریلیف تو ضمانت کے ایشو پر عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود لگتا ہے عمران کو نہ مل سکے اور دیگر کیسوں کو بہانے بنا کر اس کی رہائی نہ ہو سکے۔ ظلم کی انتہاء تو یہ ہے کہ عمران کے سگے ماموں کے انتقال پر آخری رسومات میں شرکت کیلئے اسے پیرول بھی نہیں دیا گیا۔ الیکشن کے حوالے سے بھی فیصلہ سازوں یعنی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشاء کے بموجب انتظامی ا دارے و پولیس کا کردار عمران اور پی ٹی آئی کیخلاف انتہاء پر ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدواروں، ان کے نمائندوں، تجویز کنندگان، تائید کنندگان پر تشدد حتیٰ کہ وکلاء کیساتھ بدسلوکی، کاغذات نامزدگی چھین کر پھاڑ دینا ایسے لوگ کر رہے تھے جن کی کوئی شناخت بھی نہ ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے 80 سالہ شوہر سے اہلیہ کے کاغذات نامزدگی چھیننے میں ان کی کلائی کی مضروبیت، پرویز الٰہی و مونس الٰہی کی ازواج کیساتھ زیادتی کے معاملات تو سارے میڈیا نے دکھائے، حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ خصوصاً پنجاب میں نامعلوم افراد اور پولیس کے ذریعے اس قدر ستائے گئے کہ صوبائی الیکشن کمشنر اور متعلق عہدیداروں کو آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب سے انتخابی پراسس کو پُر امن و شفاف بنانے کی اپیل کرنی پڑی۔ سوال یہ ہے کہا انتخابی مراحل سے پی ٹی آئی کو دور یا محروم رکھنے کی یہ حرکات کرنیوالے کسی سیاسی جماعت سے تھے یا کسی سیاسی جماعت کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ عوام کی مقبول ترین پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے روک سکے، ہر گز نہیں۔ پھر ایک ہی نکتہ سامنے آیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ریاستی پُشت پناہی حاصل تھی کہ ریاستی مقصد یہی ہے عمران کسی بھی طرح انتخابی مرحلے کا حصہ بن سکے۔ تمام تر مخالفانہ رویوں کے باوجود پی ٹی آئی کے 2434 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانا خود پی ٹی آئی کیلئے تاریخی ریکارڈ ثابت ہوا ہے۔ بہرحال انتخابات 8 فروری کو کروانے کے مراحل شروع ہیں۔ ہماری ان سطور کو تحریر کیے جانے تک اسکروٹنی کا مرحلہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ دیگر مراحل تک پہنچنے کے بعد واضح ہوگا کہ انتخابات 8 فروری کو ہونگے یا نہیں اور اگر ہو بھی گئے تو کیا فیصلہ ساز اپنے ہدف کے مطابق اقتدار میں لاڈلے کو لاسکیں گے۔ حالیہ منظر نامے میں مختلف چینلز اور سرویز اس امر کے باوجود کہ عمران اور پی ٹی آئی کیخلاف آئینی انتخابی ادارے ہر حربہ آزمانے پر تُلے ہوئے ہیں پی ٹی آئی کی حمایت اور ووٹ دینے کے عوامی میزاج کو بیان کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کو بلے کی واپسی سے تعبیر کیا جانے میں کی قوی امید ہے۔ دوسری جانب پرویز خٹک کے انکشاف کہ انہیں بلا انتخابی نشان بنانے کی آفر ہوئی اور الیکشن کمیشن کی وضاحت کہ یہ نشان کسی دوسری سیاسی جماعت کو الاٹ نہیں کیا جا رہا، ایک جانب سوال اٹھتا ہے کہ پرویز خٹک کو یہ آفر کس صاحب اختیار نے دی تھی دوسری جانب پی ٹی آئی کیلئے مثبت اشارہ بنتا ہے کہ عدالت میں اپیل اور فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں جائے، بالفرض اگر خدانخواستہ ایسا نہ بھی ہوا تو عوامی حمایت کے سبب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت سے جیت کر ایوانوں میں ایک قوت بن کر سامنے آسکتے ہیں۔
بہرحال حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اور جس طرح سارے انتخابی پراسس کو چالبازی کے حربوں سے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق آگے بڑھانے اور مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، وہ بار آور ثابت ہوتے نظر نہیں آتے۔ جس لاڈلے کو واپس بلا کر اور اسے تمام تر سہولتوں کی فراہمی کیساتھ انتخابی کامیابی دلانا چاہتے ہیں، وہ خود اور اس کی پارٹی کی خوفزدگی کا یہ عالم ہے کہ ڈرائنگ روم میں فیصلے کئے جا رہے ہیں، اسکے رہنما دوسرے شہروں سے انتخاب لڑنے پرمجبور ہیں، شاہد خاقان عباسی جیسے رہنما ان سے منحرف ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے منحرفین کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں، فیصلہ ساز بھی لاڈلے کی کامیابی میں پُر امید نظر نہیں آتے۔ ہمارے تجزئیے کے مطابق انتخابات شفا ف و غیر جانبدا رنہیں ہوتے نظر آتے ہیں۔ کہانی کچھ یوںبنتی ہوئی لگتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت بھاری اکثریت نہیں لے سکے گی، ہمارے حساب سے 100 نشستیں کم از کم دس سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہونے کامکان ہے۔ پیپلزپارٹی کے سندھ کارڈ کیساتھ بلوچ کارڈ سے کھیلنا بھی خالی ازعلت نہیں، یہی نہیں سرفراز بگٹی کی پیپلزپارٹی میںشمولیت اور فیصل واوڈا کی آصف زرداری سے ملاقات بھی بے معنی نہیں، یہ نکتہ کہ ہر دو شخصیات کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے ہے ایک کھلا راز ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ہم یہی عرض کر سکتے ہیںکہ فیصلہ سازوں کی بچھائی سیاسی بساط اگر تکمیل کو پہنچتی ہے تو نتیجہ محض کٹھ پُتلی تماشہ ہی ہوگا اور مقتدرین کا دست نگر ہوگا اور جب وہ چاہیں گے، بوریا بستر گول کر دیا جائے گا، ویسے بھی وطن عزیز کی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت معیاد پوری نہیں کر سکا ہے۔ یہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے۔ کیا ہاں اگر عمران کا انتخابی نشان واپس مل جاتا ہے تو افتخار عارف کے بقول!!!
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشہ ختم ہو گا
٭٭٭