ٹرائیکا پلس امریکہ، روس، چین اور پاکستان پر مشتمل فورم ہے جو افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لیے ایک مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ اپنے حالیہ اِجلاس کے بعد ٹرایئکا پلس نے افغان طالبان کے ایک اعلی سطحی وفد سے ملاقات کی جس کی قیادت نگران وزیرِ خارجہ امیر خان کر رہے تھے۔ٹرائیکا پلس نے اِسلام آباد میں منعقد ہونے والے اپنے اِجلاس میں افغان طالبان حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانے کا ایک واضح پیغام دیا ہے۔پندرہ نکات پر مشتمل مشترکہ اِعلامیے میں نگران افغان حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے عالمی طور پر قبول شدہ اصول اور بنیادی انسانی حقوق سمیت اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔اور اپنی سرزمین پر غیر ملکی شہریوں اور اداروں کے تحفظ اور جائز حقوق کا تحفظ کرے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے ہر سطح پر تعلیم تک رسائی ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہے، اجلاس میں طالبان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ملک بھر میں تعلیم تک مکمل اور مساوی رسائی فراہم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں اور طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغانستان میں پیدا ہونے والے حالیہ غذائی بحران کا موثر جواب دینے کی غرض سے افغانستان میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے، خواتین سمیت امدادی کارکنوں کی بلا روک ٹوک انسانی رسائی کو یقینی بنائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ٹرائیکا پلس کے اِجلاس سے صرف ایک دن قبل، بھارت نے دہلی میں افغانستان پر علاقائی سلامتی ڈائیلاگ کی کانفرنس بلائی تھی، جس میں روس،ایران اور پانچ وسطی ایشیائی جمہوریہ کی اعلی سیکورٹی شخصیات شامل تھیں۔ اس ڈائیلاگ کا اپنا ایک 12 نکاتی مشترکہ بیان سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور چین نے بھارت کی دعوت مسترد کر دی تھی اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے گزشتہ ہفتے بھارت پر خطے میں ‘بگاڑ پیدا کرنے والا’ (spoiler) ہونے کا الزام لگایا تھا۔ افغان طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جبکہ امریکہ کی وہاں غیر موجودگی سے واضح تھا کہ ٹرائیکا پلس مِیٹنگ نمائندگی اور اثر و رسوخ دونوں کے لحاظ سے زیادہ اہم ہے۔ البتہ دہلی اعلامیہ، جس میں شرکا نے “دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں اور مظاہر سے لڑنے” کا عزم کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں صحیح معنوں میں ایک جامع حکومت ، جو افغانستان کے تمام لوگوں کی مرضی کی نمائندگی کرے، تشکیل دی جائے۔ بھارت میں منعقد ہونے والا آٹھ ملکی اِجلاس کا اعلامیہ طالبان اور دیگر مسلح عناصر پر دباو اور مراعات کے حصول کے لیے ایک علاقائی محاذ یا اتحاد کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ افغانستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ گزشتہ ایک صدی سے وہ عالمی طاقتوں کے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے میدان بنا رہا ہے۔ کبھی برطانیہ اور روس کی باہمی کشمکش اور کبھی امریکہ اور سوویت یونین کے مابین اثرورسوخ اور مفادات کے ٹکراو کے لیے میدانِ کار زار بنا رہا ہے۔ اب جبکہ افغانستان میں طالبان اپنا اِقتدار قائم کرچکے ہیں اور عالمی طاقتوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ بنیادی اِنسانی حقوق سمیت بین الاقوامی قانون کے عالمی طور پر قبول شدہ اصول و ضوابط کو اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے طور پر پورا کریں گے تو جہاں ایک طرف طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کمٹمنٹس پوری کریں تو دوسری طرف عالمی برادری کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اِنسانی بحران اور خصوصی طور پر غذائی اور اجناس کے بحران سے نمٹنے کے لیے افغان عوام کی اِمداد کرے۔ غذائی تحفظ کا مسئلہ بہت نازک ہے کیونکہ افغانستان پہلے ہی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق اس موسم گرما میں شدید خشک سالی نے افغانستان میں لاکھوں کسانوں کو متاثر کیا ہے۔ اکتوبر میں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے ایک عوامی اقتصادی فنڈ کے قیام کا اعلان کیا،جو معاشی طور پر کمزور افغانیوں اور مائیکرو بزنسز کو نقد رقم تک رسائی فراہم کرے گا۔ جو روزگار کے قیام اور معاشی استحکام لانے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر وسائل کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس ضمن میں عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمند اثاثے بحال کردے تاکہ نگران طالبان حکومت کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں درپیش مسائل کا خاتمہ ہو سکے جبکہ حکومتی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔اِسی طرح افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور علاقائی طاقتیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے افغانستان اور افغان عوام کی قربانی سے گریز کریں کیونکہ افغانستان میں امن و اِستحکام،سنٹرل ایشیائی ریاستوں سمیت تمام خطے میں علاقائی اِستحکام اور معاشی خوشحالی کو یقینی بنائے گا جبکہ افغانستان میں جنم لینے والا اِنسانی بحران بڑے پیمانے پر ہونے والی انسانی ہجرت کی وہ صورت اِختیار کر سکتا ہے جو کِسی بھی ملک کے لیے اِنفرادی سطح پر روکنا مشکل ترین ہوجائے گا حتی کہ مغربی یورپی ممالک بھی شدید متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوں گے جبکہ پاکستان جیسے کمزور معیشت کے حامل ملک، جو پہلے ہی تین دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین بھائیوں کا بوجھ برداشت کررہا ہے، کے لیے مزید افغان مہاجرین کو سہارا دینا اس کی لڑکھڑاتی معیشت کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔
ٹرایئکا پلس نے طالبان کے ساتھ عملی روابط جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ اعتدال پسند اور دانشمندانہ پالیسیوں کے نفاذ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، جو جلد ازجلد ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان کے حصول میں مدد کر سکیں جبکہ افغانستان کی سنگین انسانی اور اقتصادی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور افغانستان کے عوام کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔
٭٭٭