عمران خان نے جب پہلا الیکشن لڑا تھا تو طارق عزیز مرحوم جو بعد میں عمران خان کو عہد حاضر کا سب سے بڑا لیڈر گردانتے رہے سے ہار گئے تھے پھر خان نے کمر کس لی پہلے تو اسے کسی نے اہمیت نہ دی، شیخ رشید نے حامد میر کے پروگرام” کیپٹل ٹاک” میں خان کے سامنے ہی اسے ٹانگہ پارٹی کا لقب دے دیا تھا ،خان نے بھی جوابا کہا کہ اگر مجھے شیخ رشید جیسی سیاست کرنی ہے تو اللہ کرے میں ایسا ہی رہوں لیکن خان نے شیخ رشید جیسوں جیسی سیاست نہیں کرنی تھی جو اب سیاست سے جیتے جی کنارہ کشی اختیار کر چکا ہے، سیاستدان اور وکیل مرتے دم تک سیاست سے دستبردار نہیں ہوتے ،خیر خان نے اپنے سٹائل کی سیاست کی جسے وہ عبادت کہتے تھے مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیتے کہ ان سے بڑا سیاستدان دنیا میں کوئی نہیں، خیر خان نے کہا کہ میں اچھے اور نیک نام لوگوں کو سیاست میں لائوں گا الیکٹبلز کو نہیں مگر یہ تجربہ جب ناکام ہوا تو سمجھ میں آیا کہ پاکستانی سیاست میں جن لوگوں کی اجارہ داری ہے وہاں الیکٹلبز کے بغیر آگے بڑھنا مشکل کام ہے لہٰذا خان کو بھی اس وقت کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خان کی نکی جئی ہاں پر الیکٹبلز کا جمعہ بازار لگ گیا ، چیدہ چیدہ کچھ لے لیے، کچھ کو انتظار کروایا گیا غرضیکہ حکومت بن گئی، طعنے باز صحافی یہاں بھی باز نہیں آئے خان نے پھر کہا کہ جب کہتے رھے کہ الیکٹبلز لائو تو میں نہیں لایا اب لے آیا ہوں تو کہتے ہو الیکٹبلز کیوں لائے ؟ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صرف خان کے نام پر بالکل نئے امیدواروں کو عوام نے دل کھول کر ووٹ دیا، بڑے بڑے برج اُلٹ گئے اسٹیبلشمنٹ نے کام دکھایا اور سن سینتالیس میں آزاد ہونے والے ملک کی عوام کو فارم سینتالیس کے ذریعے مافیا کا غلام بنا دیا لیکن عوام نے خان کا ساتھ نہیں چھوڑا مگر اس وقت چند فصلی بٹیروں اور کچھ خون دینے والے سیاست دانوں نے خان کو پریشر یا لالچ میں چھوڑ کر سیاست سے توبہ کر لی، اب وہی چھوڑ کر جانے والے اور توبہ تائب ہونے والوں میں سے کچھ ایک دفعہ پھر خان کو جوائن کرنے کے لیے ترلے منتیں کر رہے ہیں باوجود اس کے کہ خان نہ صرف جیل میں ہے بلکہ اس کی پارٹی زیر عتاب ہے ،پابندیاں ہیں ،خان کے ڈائی ہارڈ ورکر اور سیاستدانوں کی اکثریت جیل کی سختیاں برداشت کر رہی ہے پھر بھی چھوڑ کر جانے والے کچھ اصلی اور کچھ نقلی واپسی کی اُڑان بھرنے کو تیار ہیں کیوں ہیں اس بارے بات بعد میں ایک الگ کالم کے ذریعے کریں گے فی الحال سوال یہ ہے کہ کیا ان کو لے لیا جائے ؟ جی بالکل لے لیا جائے !فرشتے تو اتر کر آئیں گے نہیں انہی سے یا ان جیسوں سے ہی کام چلانا ہے اللہ ہدایت دینے والا ہے مگر اس شرط پر کہ جس طرح چھوڑ کر گئے تھے جیسے چھوڑ کر گئے تھے ،روتے روتے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ویسے ہی اب پریس کانفرنس کریں اور عوام کو بتائیں کہ غلطی ہو گئی اور کیونکر ہوئی کس کے کہنے پر ہوئی کیا دبا تھا کس کا دبا تھا اگر مال لیا تھا تو کتنا، کہاں اور کس سے لیا ضمیر کا سودا کیا تھا اور اب اگر ضمیر جاگا ہے تو بتایا جائے کہ کن وجوہات کی بنا پر جاگا ہے پھر اس وعدے پر کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی اور اب سرکاری و پارٹی عہدہ نہیں ملے گا، پارٹی میں ایک عام ورکر کی حیثیت سے کم از کم ایک پارلیمانی ٹرم تک کام کریں گے، پارٹی کو مضبوط کرنے میں فعال کردار ادا کریں گے اور احتجاجی تحریک کے ہراول دستے میں سب سے آگے نظر آئیں گے، جیسی سختیاں صنم جاوید اور عمر چیمہ برداشت کر رہے ہیں ،اس تک جانے سے گریز نہیں کریں گے تو ویلکم واپسی ہو سکتی ہے۔
٭٭٭