محترم قارئین! مصافحہ نبی پاکۖ کی بہت پیاری سنت مبارکہ ہے۔ مصافحہ کا مطلب ہے خلوص دل اور محبت سے ہاتھ ملانا۔ حضورۖ خود بھی مصافحہ فرماتے اور آپ ۖ کے صحابہ بھی آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ جب وہ آپس میں ملیں یا جدا ہوں تو تو ہاتھ ملائیں۔ مصافحے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کیا جائے۔ اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ سے ہتھیلیوں کی جانب سے ملائیں۔ پھر خود اپنا بایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر رکھ دے۔ ایسے ہی دوسرا اپنا بایاں ہاتھ اس کے دائیں ہاتھ پر رکھ دے۔ اس طرح دایاں دائیں سے مل گیا اور بایاں بائیں سے مل گیا۔ دونوں کا ایک ایک ہاتھ درمیان میں آگیا۔ حضورۖ کے مصافحے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورۖ نے ایک مرتبہ جب ان سے مصافحہ کیا تو حضورۖ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یعنی ہر ایک کا ایک ایک ہاتھ دوسرے کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔ بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہاتھ ملاتے وقت دوسرے کے انگوٹھے کو تھوڑا سا دبائیں کیونکہ انگوٹھے کے ساتھ ایک رگ ہوتی ہے جسے پکڑنے سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ مصافحہ دراصل سلام کرنے کا ہی ایک حصہ ہے کیونکہ اس سے السلام علیکم کہنے یعنی سلام کرنے کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور مصافحہ سے محبت اور مسرت کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایا: مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ تم اپنا ہاتھ مریض کی پیشانی یا ہاتھ پر رکھ کر اس سے اس کا حال پوچھو اور تمہارا آپس میں سلام کرنا مصافحہ سے مکمل ہوتا ہے۔ مصافحے کا بنیادی اسلامی اصول یہ ہے کہ مرد دوسرے مرد سے ہاتھ ملائے اور عورت دوسری عورت سے ہاتھ ملائے۔ مصافحے کے لئے کسی مرد کو کسی عورت سے ہاتھ ملانا مکمل جائز نہیں ہے۔ ایسے ہی کسی عورت کو کسی مرد سے مصافحہ کرنا ناجائز نہیں۔ کیونکہ مرد اور عورت کا آپس میں مصافحہ کرنا خلاف شرع ہے۔ مرد اور عورت کے مصافحے کی رسم دراصل غیر مسلموں کی ہے کیونکہ ان کے معاشرے میں اس عمل کو برائی تصور نہیں کیا جاتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو نبی کریمۖ سے دریافت کرتے ہوئے سنا۔ یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی جب اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو کیا جھک جائے؟ آپ نے فرمایا نہیں، اس نے عرض کیا کہ کیا لپٹ جائے اور بوسے لے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے عرض کیا اس کا ہاتھ تھام لے اور مصافحہ کرے؟ آپ نے فرمایا: ہاں(ترمذی شریف) اس حدیث مبارکہ میں مصافحے کی اجازت صرف مسلمان بھائیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو دی گئی ہے کہ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد صرف مرد سے مصافحہ کرسکتا ہے۔ یعنی وہ مخالف جنس سے مصافحہ نہیں کرسکتا۔ باقی برابر والا برابر والے سے نہ لپٹے اور نہ بوسہ لے ۔ چھوٹا بڑے کے ہاتھ کو بوسہ بھی دے سکتا ہے اور جھک کر سلام بھی کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ بڑے کی تعظیم کا حصہ ہے۔ جیسا کہ دوسری احادیث سے یہ عمل ثابت ہے حضورۖ مدینہ منورہ تشریف چمکے تھے کہ ایک مرتبہ یمن کے چند لوگ مدینہ منورہ میں آئے۔ وہ مصافحہ کرتے تھے۔ ان کی یہ عادت حضورۖ کو پسند آئی کیونکہ ان کے اس فعل سے محبت کے آثار واضح ہوتے تھے۔ چنانچہ حضورۖ نے اپنے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو اس روز سے مصافحہ کرنے کی تاکید فرما دی۔ اس دن سے صحابہ کرام علیھم الرضوان نے اس عمل کو اپنا لیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اہل یمن آئے تو نبی پاکۖ نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں اور وہی سب سے پہلے اپنے مصافحہ لائے ہیں۔(ابودائود شریفا) جتنی بار ملاقات ہو۔ اتنی بار مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ پانچوں نمازوں کے بعد، نماز عیدین اور نماز جمعہ کے بعد مسجد سے رخصت ہوتے وقت امام اور دیگر مقتدیوں سے مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے نیکیوں میں اضافہ ہوگا۔ حضورۖ کے صحابہ کرام علیھم الرضوان میں مصافحہ کا عام رواج تھا۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہۖ کے صحابہ علیھم الرضوان میں مصافحہ کا رواج تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، مصافحہ کرنے سے دل پاک وصاف ہوجاتا ہے اور گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس لئے اگر دل میں کسی کے خلاف تھوڑی کدورت ہو بھی تو مصافحہ کرتے وقت نکال دینی چاہئے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے فرمایا جب دو مسلمان ملیں اور مصافحہ کریں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کو بخش دیا جاتا ہے۔(ترمذی شریف) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورۖ نے فرمایا کہ مسلمان جب دوسرے مسلمان سے مل کر مصافحہ کرتا ہے تو ان کے گناہ اس طرح معاف ہوجاتے ہیں۔ جس طرح آندھی میں درخت کے خشک پتے گر جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے