داتا صاحب نے اس ضمن میں قرآن مقدس کی ایک ایسی سبق آموز اور معنی خیز آیت شریفہ پیش کی ہے جس سے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حال اور مقام واشگاف ہوجاتا ہے اور اس آیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم محبت کے مذکورہ معنی کو اچھی طرح سمجھیں، رب قدیر اپنے خلیل علیہ السلام کے حال ومقام کو یوں بیان فرماتا ہے: فانھم عدولّی الارب العٰلمین:یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رب کائنات کے سوا سب میرے دشمن ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خداوند قدوس نے اپنی محبت کی خلعت سے اس طرح بہرہ ورو سرفراز فرمایا کہ وہ محض طاعت حق کے لیے دنیا سے جدا ہوگئے اور سب اہل عالم ان کے سامنے ایک پردہ حائل کی شکل ہو کر رہ گئے۔ اسی پردہ حائل سے بیزار ہو کر آپ نے فرمایا کہ رب العٰلمین کے سوا سب میرے دشمن ہیں۔ داتا صاحب حُب کا تیسرا معنی یہ کہ حب دراصل وہ چار چوبہ ہے جس پر پانی کا برتن رکھا جاتا ہے بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح چار چوبہ جو پانی کا بوجھ بخوشی برداشت کرتا ہے اسی طرح محب صادق بطیب خاطر حُب حق میں عزت، ذلت، راحت، تکلیف، آفت، آسائش، وفا اور جفا سب شاداں وفرحاں برداشت کرتا ہے۔ اور کسی بھی حالت میں کوئی چیز گراں نہیں گزرتی بلکہ ایسا بندہ مومن راضی برضائے مولا رہتا ہے۔ بعض لوگوں نے محبت کو حباب الماء سے مشتق مانا ہے۔ حباب کہتے ہیں بلبلے کو اور ماء کا معنی ہے پانی تو حباب الماء کا معنی ہوا پانی کا بلبلا۔ اس کی وجہ اشتقاق یہ بتائی گئی کہ جس طرح شدت بارش کے جوش میں بلبلا پیدا ہوتا ہے اسی طرح محب صادق کے دل میں اپنے محبوب کی بقا کے لیے جوش پیدا ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل محبت بظاہر پرسکون نظر آتے ہیں لیکن وہ محبوب کے شوق دید میں ہرآن مضطرب و بے قرار رہتے ہیں۔ محبت سے متعلق ایک بہت ہی اہم بات قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ محبت کی نسبت خدا کی طرف بھی کی جاتی ہے اور بندے کی طرف بھی۔ لیکن ان دونوں نسبتوں میں فرق پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسل میں علمائے تصوف نے مختلف طریقوں سے بحث کی ہے۔ ہم ان تمام بحشوں کا تتمہ یعنی خلاصہ مختصراً پیش کرتے ہیں تاکہ ذہن و دماغ میں کسی قسم کی شق باقی نہ رہے۔
٭٭٭