برطانوی لکھاریJOHN LiLLYنے عقل سے متعلق کچھ باتیں لکھی ہیں اپنی ناول”EUPHVES” میں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے یہ ناول1578 میں شائع ہوئی تھی اور اس میں محبت، دوستی، لڑائی معاشرے کا بگاڑ اور طاقت کی بددیانتی سب کچھ ملے گا اور جب آپ پڑھ چکے ہونگے تو آپ کو یہ جملہ یا محاورہ یاد رہے گا”ALL IS FAIR IN WARE LOVE” 475سال گزرنے کے بعد بھی آپ کو یہ جملہ، سیاست دانوں آمروں محبت سے جلے انسانوں اور طاقت کے نشے میں چور نچلی ذہنیت کے انسانوں میں ملے گا اور ان دو کیفیتوں میں آجانے کے بعد آپ کو معلوم نہ ہوگا کہ آپ غلط کر رہے ہیں یا درست یہ بات پاکستان کے حکمرانوں پر درست بیٹھتی ہے جن میں پچھلے دنوں ایک آمر کا نام ابھر کر آیا ہے۔ جس کا نام عاصم منیر ہے چونکہ یہ شخص امریکہ کی گود میں ہے اور اس سے پہلے کے کمانڈر انچیف بھی امریکہ کی گود میں بیٹھے رہنے پر اپنی طاقت سمجھتے تھے جبکہ گودوں میں بیٹھ بیٹھ کر سب ہی اپنی طاقت گنوا چکے تھے کچھ اپنے انجام کو پہنچے اور کچھ باہر ملکوں میں گم ہیں۔ سنا تھا جہاں کا بانی آپ نے پیا ہو وہیں پر رہنے کو دل چاہتا ہے اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ مسلمان ہو کر اپنی طاقت سے ہر ایک کو دھوکہ دیتے ہیں اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں۔ عاصم منیر کو پاکستان میں یہ پھولوں کی سیج اس صدی کے گھنائونے اور منافق حکمرانوں نے سجا کر دی کہ آئیں اور ہمارا ساتھ دیں عمران خان کو ختم کرنے میں پھر خود ہی اعلان کریں۔ محبت اور جنگ میں ہر چیز ٹھیک ہے چاہے آپ کسی کو بھی پھانسی پر چڑھا دیں یہاں مرحوم ضیاء الحق یاد آتے ہیں کہ نمازی پرہیز گار مذہب کا لبادہ اوڑھے ہر وہ کام کرگیا جس کے لئے ہر مذہب میں منع کیا گیا ہے ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے یہ ہی درس ملا ہے۔ اللہ ایک ہے اور رسول صلعم کے آنے کے بعد جو مذہب آیا وہ اپنی ذات میں زندگی گزارنے کا طریقہ تھا جس کے لئے مسلمان ہونے کے ناطے کچھ بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں کسی بھی زاویہ سے سوچیں تو اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو آپ کو خوشگوار اور پرسکون زندگی کا طریقہ بناتا ہے قرآن پاک میں جگہ جگہ بتا دیا گیا ہے ان تمام پیغمبروں کے لئے جن کے بارے میں ہم بچپن سے جانتے آئے ہیں اور دلچسپ پیرائے میں بتایا گیا، لیکن ہم مذہب کی سادگی پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں ایک جج کو کہا ہے ہم بار بار حج کرتے ہیں اور ذرا نہیں بدلتے حال ہی میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی حج کر لوٹے تھے داڑھی بڑھائی تھی جو سنت رسول ہے کاروبار انکا ریستوران ہے لیکن منافع خوری ان کا پیشہ تو وہ ہی جملہ یاد آتا ہے فلم سر فروش کا جب سینا شوری ایک ڈاکو کو نماز پڑھتے دیکھتی ہے تو حیرانی سے پوچھتی ہے تم کیا ہو ڈاکے بھی مارتے ہو اور نماز بھی پڑھتے ہو سنتوش کمار جواب دیتے ہیں ”وہ میرا پیشہ اور یہ میرا مذہب ہے”۔ اب یہ بات عاصم منیر پر رکھ کر سوچیں کہ یہ شخص تو اس ڈاکو سے بدتر ہے جو امریکہ کی ہدایات پر پورے ملک اور عوام کا سکون تباہ کر چکا ہے انسانی حقوق پر ڈاکے مار چکا ہے اور اسکا ساتھ دینے والے زرداری سندھ میں پولیس کی نگرانی میں14اگست پر گھر گھر جاکر دیکھ رہے ہیں کس نے جھنڈا لگایا ہے ایک ایسا ہی ویڈیو دیکھنے کو ملا جس میں حالات سے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ گھر سے جھنڈا اتار دیا تو پولیس والے موقع کی تاک میں اسے پکڑنے آگئے تو اس کا شوہر مدد کو آیا دونوں کی آواز صاف سنائی نہیں دے رہی تھی اور یہ سب کھلے بازار میں لوگوں کی موجودگی میں ہو رہا تھا کسی کو نہ ہوش تھا نہ جوش اور نہ ہی اللہ اور رسول پر ایمان بزدل کی طرح تماشہ دیکھ رہے تھے ایسے کئی واقعات آپ نے دیکھے ہونگے کس کس کا ذکر کریں۔
معاشرے میں بھّدا پن آگیا ہے اور وہ ملائی صورت میں ابل ابل کر جنرلوں سیاست دانوں، ججوں، پولیس افسران کے منہ میں گھس چکا ہے کہ اس کا مزہ بڑے شوق سے لے رہے ہیں ان میں سب کے سب نون لیگ اور مسلم نون کے علاوہ جے یو آئی کے لوگ ہیں۔ آج ہی یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جج ہمایوں دلاور کے نون لیگ سے پرانے تعلقات تھے اور عمران خان کے وکیل اس بات کو میڈیا اور سینئر ججوں کو باور کر چکے تھے یہ بات یقیناً عاصم منیر تک پہنچی ہوگی جو اپنے سے بھی بدتر انسان رانا ثناء اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ اسے پیغام دے چکے ہیں جو کرو بے فکری سے کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اور پھر بڑے یقین سے کہتے ہونگے اپنے دل ودماغ میں کہ مجھے ہی امریکہ بہادر نے عمران کو سبق سکھانے کا کام سونپا ہے یہ بات کھل کر بچے بچے کو معلوم ہے کہ امریکہ عمران کا باہر کرنے میں مستعد تھا اور کہتا تھا کہ ہم اس میں شامل نہیں لیکن چونکہ19ویں صدی اور اکیسویں صدی کے امریکہ میں معاشرے اور سیاست میں حد درجہ بھدا پن آچکا ہے کہ ایک ہاتھ کو خبر نہیں دوسرے ہاتھ میں کیا ہے امریکہ نے تیسری دنیا کے ملکوں میں خود کو منوالیا ہے کہ تباہی اور بربادی کے ذمہ داری یہ ہی ہیں۔ افسوس کہ امریکہ کی وزارت خارجہ کے قدم غلط ہی اٹھتے ہیں اور جو بنا ان کا دوست اس کی خیر نہیں، دیکھیں کب یہ عاصم منیر جس کے ذمے عمران خان کو ٹھکانے لگانا ہے آسمان براد یا سمندر برد ہوگا۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیوں امریکی خارجہ پالیسی جو تیسرے درجے کے ملک ہیں ان کے لئے غلط ہے کہ وہ ایک عامر پر بھروسہ کرکے کروڑوں عوام کو عذاب میں ڈالتے ہیں۔
9مئی کا ڈرامہ رچا کر عاصم منیر نے جو حرکات کی ہیں وہ امریکہ کو ثابت کرچکے ہیں کہ ہم سے اچھا کون ہے لیکن امریکہ ایسوں کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتا۔ وہ عاصم منیر کو کمانڈر انچیف بنا کر ثابت کر چکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی صدر کو اس علم نہیں کہ نیچے والے کیا کر رہے ہیں ویسے بھی یہ لوگ تھرڈ ورلڈ ملکوں کے ہیں تو ذہن بھی ایسا ہی ہوگا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عاصم منیر اور ایک بھّّدا سیاست دان جس پر ماڈل ٹائون میں14قتل کا الزام ہے مل کر عاصم منیر کے ساتھ یہ ہی کہہ دیا ہے کہ جنگ میں ہر چیز جائز ہے ایسے بے غیرت پاکستان کی بھّدی اور شرمناک تاریخ لکھ رہے ہیں لکھاری کی فہرست میں امریکہ بہادر بھی ہے عمران خان کے لئے کیا لکھیں کہ طاقت کے نشے میں تمام سیاست دانوں اور چند جنرلوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ ہر صورت میں عمران کا جوش عوام کے دلوں سے نکالنا ہے اس کے لئے میڈیا کو استعمال کیا ہے جو ڈالرز کے عیوض ہر بھّدا کام کرسکتے ہیں اپنی ماں، بیٹیوں کا سودا بھی اور ایسا ہوتا رہا ہے اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے پاکستان میں آپ ایک بھّدی تصویر بنا سکتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں جو کلچر اور لٹریچر ہے وہ درآمد کرکے کیا کرینگے اچھے کلچر کے لئے خود کو اچھا بننا پڑے گا، کیا یہ ممکن ہے؟ عاصم منیر اور ثناء اللہ کے ہوتے ہوئے نہیں!۔
٭٭٭٭