باپ کا باپ !!!

0
80
شبیر گُل

انسان کو اشرف المخلوقات اس لئے کہا گیا ہے وہ اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے۔انسان کو دوسری مخلوقات سے فضیلت اور تکریم ہے کہ انسان کواللہ رب العزت نے احسن تکویم پر پیدا کیا ہے۔ یعنی کہ وہ سیدھا چلتا ہے۔ لیکن ہم سیدھے راستے کو ترک کرکے اکثریت کے پیچھے چل رہے ہیں؟ ایک بار سیدنا عمر رض اللہ بازار میں جا رہے تھے، وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو دعا کر رہا تھا. “اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر، اے اللہ! مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر” سیدنا عمر رض اللہ نے اس سے پوچھا، یہ دعا تم نے کہاں سے سیکھی؟ وہ بولا، اللہ کی کتاب سے، اس لئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: “اور میرے بندوں میں صرف چند ہی شکر گزار ہیں۔”
(القرآن 34:13) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رو پڑے اور اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے بولے، “اے عمر! لوگ تم سے زیادہ علم والے ہیں، اے اللہ مجھے بھی اپنے ان چند لوگوں میں شامل کر۔” ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص سے کوئی گناہ کا کام چھوڑنے کا کہتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ اکثر لوگ کرتے ہیں، میں کوئی اکیلا تو نہیں۔ اگر آپ قرآن پاک میں “اکثر لوگ” تلاش کریں تو آپ یہ پائیں گے … “اثر لوگ نہیں جانتے”(7:187) “اثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے”(2:243) “اثر لوگ ایمان نہیں لائے”(11:17) اگر آپ “زیادہ تر” کو تلاش کریں، تو آپ کو ملے گا کہ … “زیادہ تر شدید نافرمان ہیں”۔ (5:59)
“زیادہ ترجاہل ہیں” (6:111) “زیادہ تر راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں۔” (21:24) ” زیادہ ترسوچتے نہیں۔” (29:23) “زیادہ تر سنتے نہیں” (8:23) تو اپنے آپ کو “چند لوگوں” میں شامل کریں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایاِ … “میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں”(34:13) “اور کوئی ایمان نہیں لایا سوائے چند کے”(11:40) “مزے کے باغات میں پچھلوں میں زیادہ ہیں اور بعد والوں میں تھوڑے” (56:12-14) “چند لوگوں” میں اپنے آپ کو شامل کریں اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ اور کوئی اس راستے میں نہیں اور آپ اکیلے ہیں۔
قارئین کرام!۔ ہجوم اور اکثریت کو ترجیح کی بجائے۔ ان لوگوں کو ترجیح دیں جو اخلاقی اعتبار سے اللہ کی کتاب کو اپناتے ہوئے۔ جو کرپٹ بددیانت نا ہوں ۔ جن کا کردار اجلا ہو۔ہم ووٹ دیتے وقت ان چیزوں کا لحاظ نہیں رکھتے۔ برے اور بداعمال کا انتخاب کرتے ہیں۔ پانچ سال انکی بری کارکردگی کا رونا روتے ہیں ۔ مگر الیکشن میں ایسے ہی بدبودار لوگ کا انتحاب کرتے ہیں جنہیں کئی دھائیوں سے بار بار آزما رہے ہیں۔ معاشرہ میں چند لوگ ہی دیانتدار، ایماندار اور اہل ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک جماعت اسلامی ایماندار، باکردار اور صالح لوگوں کی جماعت ہے۔ جو آئین پاکستان، نظریہ پاکستان۔ تخفظ پاکستان کے امین ہیں ۔ جو عبادت خدا کی اطاعت مصطفے کی اور خدمت مخلوق خدا کی پر یقین رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے عمل وکردار سے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ بحثیت مسلمان اور پاکستانی اچھے معاشرہ کی آبیاری ۔ بزرگوں کی قربانیوں کا ادراک اور نظریہ پاکستان کا تخفظ ہماری ذمہ دادی ہے۔موجودہ دور حکومت کی پارلیمانی ہسٹری میں ایک انوکھی مثال قائم کی گئی۔ جس کا اندراج گینز نک میں ہونا چاہئے۔ حکومت کے آخری دن ایک سو اتیس بل سینٹ سے پاس ہوئے۔جو انوکھا عمل ہے۔ یک ڈفر اور جاہل لیڈر آف اپوزیشن راجہ ریاض کی مشاورت سے کئیر ٹیکر نگران setup آگیا۔۔ آپس میں ریوڑیاں بانٹنے کے منتظر ،سیاسی گماشتے ۔ن لیگ، پیپلز پارٹی اور فضل الرحمن ہاتھ ملتے رہ گئے۔
الیکشن کمیشن کی بے ایمانی نے پورے ملک کو آزمائش میں ڈالے رکھا۔ اب وہی الیکشن کمیشن آئیندہ الیکشن کو جی ایچ کیو کی ہدایات پر رزلٹ manipulate کرئے گا۔ الیکشن کا فئیر اینڈ فری ھونا خارج ازامکان ہے۔
ڈمی اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض پی ڈی ایم کا باپ اور سب سے طاقتور نکلا۔ جیسے Lower کورٹ کا جج ھمایوں دلاور سپریم کورٹ کے جج سے طاقتور نکلا۔چیف جسٹس کے فیصلوں کو نا مان کر حکمرانوں نے عدلیہ کی توہین کی ہے ۔ جو آئین سے ماورا تھے۔ایک چھوٹا سا جج چیف جسٹس سے انتہائی طاقتور ثابت ھوا۔ ایسے چیف جسٹس کو مستعفی ہونا چاہئے جو اپنے فیصلے کو منوا نہ سکیں ۔اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کے تارے شہباز شریف کی سپیڈیں دیکھ کر پریڈ میں چودہ اگست کا جھنڈا لہرانے سے روک دیا گیا۔جس پر حرام مال کھانے والے لفافی صحافی مضطرب و پریشان ہیں۔ جنکی آنکھوں میں کبھی محبت کے شہتیر تھے آج ککرے نظر آتے ہیں۔ راجہ ریاض نے نگران وزیراعظم کی سمری پر دستخط کروا کے بتا دیا کہ اب اسٹبلشمنٹ کی آنکھ میں ککرے پڑ چکے ہئں۔ آپکا بوریا بستر گول۔جو کہتے تھے کہ گول مال ہے بھائی گول مال ہے۔انکا روزگار بند ہونے پرچیخیں کچھ ہی روز میں سنائی دیں گی۔ پی ڈی ایم کی سبکی پر چوہدری جاوید،غریدہ فاروقی، محسن بیگ،عبدالقیوم صدیقی،سلیم صافی ،افتحار چڑچڑے،کامران شاہد کو جلاب لگ گئے ہیں۔ یاد رکھیں آج تک جنہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ وہ نشان عبرت بن گئے ۔اورانشااللہ آئیندہ بھی نشان بنیں گے۔ جو کہتے تھے سیاست نہیں ریاست بچانے آئے ہیں۔سولہ ماہ لیول پلینگ فیلڈ سٹ کرتے رہے۔انہوں نے معیشت کے بخییے ادھیڑ دئیے۔مہنگائی نے عام عوام کے چولہے ٹھنڈے کردئیے۔ بڑھتے جرائم نے خوف کی فضا قائم کردی ہے۔کیونکہ ان سیاست دانوں کا کام صرف مال بنانا ہے۔ اسکے لئے ان سے جہاں مرضی انگوٹھا لگوالیں۔انکی ننگی ویڈیوز بنائیں ۔ یا پینٹ اتاریں ، یہ بیشرم اقتدار کے بھوکے کتے ہیں ۔ جنہوں نے عوام اور ملک کو کچھ نہئں دیا۔ان کے کالے کرتوں کی وجہ سے گزشتہ ستر سال سے بڑے اداروں کے اختیار کو اسٹبلشمنٹ نے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اختیارات نیچے تک منتقل نہیں ہوسکے۔ کراچی کا بلدیاتی الیکشن اس کی زندہ مثال ہے۔کیونکہ اسٹبلشمنٹ کو انسانوں کی بجائے دمدار جانور چاہئیں ۔کاکڑ، ٹھاکر اور دلاور سے اسے خوف ہو جنہوں نے ناجائز کام کئے ہیں۔ ملک کو لوٹا ہے۔ بددیانتی کی ہے ۔ ھم پوری زندگی یہی سنتے آئے ہیں کہ اس کی بار کڑا احتساب ھوگا۔وقت کا پہیہ ایسے ہی گھوم رہا ہے۔ چور بھی موجود ۔ ڈاکو بھی براجمان۔ قاتل مذہبی درندے بھی متحرک ۔قومی جانوروں کے قبضے اور مخافظوں کی بھی موجیں۔ اسے ہی تو پاکستان کہتے ہیں اسی کا نام آزادی ہے۔
کیا؟ اسی لئے قافلے لٹے ۔عصمتیں لٹیں۔ گردنیں کٹیں ۔ لاکھوں قربان ھوئے۔لے کے رہینگے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ کے نعرے لگانے والے مجاہدوں اور شہیدوں کی قربانیوں کی توہین ہوتی رہے گی۔ ؟ مودی کے یار۔ امریکہ کے پٹھو۔ آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق پہنے دم ہلاتے رہینگے۔ اسٹبلشمنٹ اور جرنیل منہ زور گھوڑا ھے۔جن کی داداگیری سے سبھی واقف ہیں۔ جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوام کو کچلنے اور پاکستان کو اندھیروں میں رکھنے کے مجرم ھیں ۔انصاف کے علمبردار ججز کے کمپرومائزڈ رویہ نے پورے ملک کو برباد کردیاہے۔ یاد رکھیں آج تک جنہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ وہ نشان عبرت بن گئے ۔اورانشااللہ آئیندہ بھی نشان بنیں گے۔ کیونکہ اسکی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے۔پارلیمنٹ،سینٹ،سپریم کورٹ ہائیکورٹس ، چیف سیکرٹریز ،اور بیوروکریسی اور جمہوری کھوتے (الیکٹبلز )اسٹبلشمنٹ کی زیرکنٹرول ہیں ۔
قارئین!۔ ھم عبادت بھی کرتے ہیں ۔نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ تکبیر اولی اور اگلی صفوں میں جگہ بھی پاتے ہیں۔ مگر دعائیں بیاثر۔ ھم چوروں، بدمعاشوں اور لٹیروں کا انتحاب کرتے ہیں۔ اور ریاست مدینہ کے ثمرات کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ذبیح ہوتے دیکھتے ہیں مگر بے حس اور خاموش رہتے ہیں۔پی ڈی ایم جنھوں نے ٹرانس جینڈر بل جیسے متنازعہ بل ، اسمبلیوں میں موو کیے ۔اسکے بھیانک رزلٹ آنا شروع ہوگئے ہیں۔ٹی وی پر اخلاقیات کے بھاشن دینے والے پی ڈی ایم کے اہم صحافی نما رہنما نجم سیٹھی کے بیٹے علی سیٹھی نے سلمان طور نامی نوجوان سے شادی کر لی ۔ شق نمبر چھ کا قانونی طور پر اطلاق جاری ہے۔ لعنت ایسے کھوتی کے بچوں پر ۔جو لفافے تھامے پی ٹی آئی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے جھنڈے تھامے کھڑے ہیں۔انکی عقل و خرد سو گئی۔ جہالتوں میں کھو گئی۔
پارلیمنٹ،سینٹ،سپریم کورٹ ہائیکورٹس ، چیف سیکرٹریز ،اور بیوروکریسی اور جمہوری کھوتے (الیکٹبلز )اسٹبلشمنٹ کی زیرکنٹرول ہیں ۔ بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ ہمارئے بڑوں نے میرے اور مریم کے لئے راہ ہموار نہئں کی۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انکی پیدائش صرف اقتدار کے لئے ہوئی ہے۔
پورا پنڈ بھی مر جائے ۔ بلاول زرداری (کانپیں ٹانگنا) اور مریم صفدر (نانی 420) وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے کی حسرت دل میں لئیئے جلتے کڑتے رہیں گے۔ مریم نواز آجکل چپ ہے لیکن عمران خان کء رہائی کے بعد بولنا شروع کرئے گی ۔وہ اپنے والد کو وزیراعظم بنتا دیکھ رہی تھیں اس لئے گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے خاموش تھیں۔لیکن سپریم کورٹ نے انکے سیاسی غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ کیونکہ دادا تو باپ کا بھی باپ ہے۔
مریخ سے مریم صفدر کی آہیں بھی سنائی نہئں دے رہیں۔ گزشتہ سولہ ماہ جن لفافیوں کے پیٹ میں حرام مال نے اودھم مچا رکھا تھا ۔انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ فی الحال کچھ عرصہ سکوت رہے گا ۔البتہ چند روز بعد انکے پیٹ میں جمال گوٹا طوفان برپا کرئے گا۔ جیسا کہ آپکو معلوم ہے کہ حرام مال، حرام کمائی اور حرام لچھن انسان کو ٹکنے نہیں دیتے۔ بہرحال ڈنڈے کی آواز سن کر کچھ مجرم ملک سے بھاگنے کی کوشش کرینگے۔ (جناں کھادیاں گاجراں ٹیڈ انہاں دے پیڑ )کچھ لفافی کاکڑ کو ٹھاکر اور کچھ تعریفوں کے پل باندھ دینگے۔چند جوکر نواز شریف کی سینکڑوں بیماریاں بتاتے تھے۔ وہ نصرت شہباز کی بیماریاں گنوا کر حرام کو حلال کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ابھی تو سپیڈ شریف کو کمر درد اور زرداری کی ویل چئیر کا ڈرامہ باقی ہے۔ پی ڈی ایم کے ساتھ تو ہاتھ ہوا ہی ہے۔ البتہ مولانا ڈیزل کی صدرات والی اچکن کو سولہ ماہ سے لٹکے لٹکے کیڑا لگ گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں محسن بیگ کا کہنا تھا کہ بیس فیصد الیکٹیبلز کو وہ پی ٹی آئی میں لائے تھے۔ جو بھاگ چکے ہیں۔ تعفن زدہ ،بدبودار سسٹم ایسے ہی بدکرادر مجرموں کو قوم پر مسلط کرتا ہے ۔جو پیپلز پارٹی،ن لیگ اور پی ٹی آئی میں روشن خیال تصور کئے جاتے ہیں۔ آپ یو ٹرن لیں یا رانڈ ٹرن ۔سری پائے کھا کرسوئیں یا لسی پی کو سوئیں۔ اباٹ ٹرن یا دم دار سیاروں کا آنا یقینی ہے۔
جمہوری چیمپئن نواز شریف کی پلیٹیں ایکبار پھر خراب ھونگی۔ شہباز شریف بیمار شریف نظر آئینگے۔شیر کھوتے کی طرح چلتا دکھائی دے گا۔ موسمی اور سیاسی قرائن بتاتے ہیں کہ آئیندہ کرپٹ عناصر کے جمہوریت کے فروغ کے لئے لندن اور دوبئی سے قافلے نکلیں گے۔ جو بوٹوں کے خوف سے صرف اخباروں کی سرخیوں تک محدود رہنگے۔تہتر کے آئین کے تناظر میں مولانا ڈیزل کچھ عرصہ خاموش رہنگے۔پھر بکنے اور بکنے پر راضی ھونگے۔ لفافی اور جمہوری صحافی مڑوڑ کے باعث تکلیف میں رہنگے۔ دم کٹا مفاد پرست طبقہ اب جلدی الیکشن کی رٹ لگائے گا۔انکی سوئی غیرت جاگنے کو آغاز آئیندہ ایک دو ہفتوں میں اٹ سیاپے کے ساتھ ھوگا۔ کراچی میں قاتلوں اور دہشت گردوں کے ٹولے (ایم کیو ایم )کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جائے گی۔ الیکٹیبلز اور جی ایچ کیو کے منظور نظر گدھوں کے انتحاب کی راہ ہموار کی جائے گی۔ تاکہ بوقت ضرورت انکی قیمتی لگائی جاسکے۔یورپ میں کتوں کی اور پاکستان میں عوامی کھوتوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔
وہی ستر سالہ پرانا کھیل مملکت خدادا کے ساتھ کھیلا جائے گا۔جس میں عوام کی پریشانیوں ۔نوجوانوں کی بیروزگاری ۔ مزدوری کی مشکلات اور مہنگائی میں کمی کا مداوا بالکل نہئں ھوگا۔ چہرے بدلنے سے نظام کی تبدیلی دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بحیثت قوم چودہ اگست کی پریڈ نہیں ۔ایک بڑی چھتر پریڈ ،ھمارء قومی ضرورت ہے۔
شبیراحمدگل (نیویارک)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here