فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
46

محترم قارئین! اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے، ترجمعہ: حم یہ حروف مقطعات ہیں۔ ان کا معنی ومفہوم اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ قسم ہے روشن کتاب کی بے شک ہم نے اس کو اُتارا ہے، مبارک رات میں بے شک ہم ڈرانے والے ہیں۔ اس میں تقسیم کردیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے حکم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔(سورہ دُخان پارہ نمبر٢٥)ایسی مقدس ومتبرک راتوں کے عطا کئے جانے میں بہت برکتیں اور حکمتیں ہیں۔ مثلاً اگر پہلی اُمتوں کی عمروں کاحساب لگایا جائے تو ان کی عمریں صدیوں پر محیط ہیں۔ مگر اس اُمت کی عمریں بہت کم ہیں۔ اگر نیکیوں کا حساب لگایا جائے تو اُمت مصطفیٰۖ کی نیکیاں کم ثابت ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا یہ ہے کہ میرے حبیبۖ کی اُمت کی عمریں اگرچہ تھوڑی ہیں مگر نیکیاں تو پوری یا زیادہ ہونی چاہئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضورۖ کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسی متبرک راتیں عطا فرمائیں کہیں شب برات ہے۔ کہیں شب قدر ہے شب قدر اور شب برات میں شام سے ہی نزول شروع ہوجاتا ہے تاکہ ہم گنہگاروں کو بھی فیض مل جائے۔ باقی سال میں جب ہم جاگتے ہیں تورحمت کا نزول شروع نہیں ہوتا۔ جب ہم سوتے ہیں تو رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ علامہ عبدالرحمن صفوری شافعی رضی اللہ عنہ نے ایک حکایت اپنی کتاب نزھتہ المجالس میں نقل فرمائی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عیٰسی علیہ السلام کا گزر ایک سفر میں ایک پہاڑ کے پاس ہوا۔ پہاڑ کی چوٹی سے نور کی شعاعیں آسمان کی جانب اٹھتی ہوئی دیکھ کر رک گئے۔ حضرت ذات باری تعالیٰ نے فرمایا: اے عیٰسی علیک السلام کیا آپ اس نظارے کی حقیقت کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ عرض کی ! ہاں! یا اللہ:فرمایا ! پھر پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لایئے۔ چنانچہ حضرت عیٰسی علیہ السلام پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لائے۔ تو پہاڑ کی چوٹی شق ہوئی اور ایک بزرگ سفید ریش کو وہاں مصروف عبادت پایا۔ اور اس کے پاس بڑے ہوئے پھل دیکھ کر محو حیرت ہونے لگے کہ اتنے میں اس بزرگ سے نماز سے فراغت حاصل کی تو عیٰسی علیہ السلام نے اس شخص سے سوال فرمایا کہ آپ کب سے مصروف عبادت ہیں؟ اس بزرگ نے بتایا کہ مجھے اس پہاڑ کے اندر چار سو سال عبادت کرتے ہوئے گزر گئے۔ رات کو قیام کرتا ہوں اور دن کو روزہ رکھتا ہوں اور یہ پھل جنت سے میری سحری اور افطاری کے لئے آتے ہیں۔ اس پر حضرت عیٰسی علیہ السلام نے سوچا کہ اس شخص سے کوئی بڑا عابد نہیں ہوگا۔ جو انتہائی ہے ریا طریقہ سے عبادت کر رہا ہے۔ کیونکہ یہاں رہا اور دکھلاوے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا چنانچہ یہ خیال آیا ہی تھا کہ کہ خداوند عالم نے فرمایا: اے عیٰسی! ایسا نہیں ہے بلکہ میرے پیارے رسول اور آخری نبیۖ کی اُمت کو میں شعبان میں پندرہ کی شب ایسی بابرکت دونگا کہ اگر کوئی شخص اس رات جاگ کر قیام کرلے اور دن کو روزہ رکھ لے تو میں چار سو سال سے زیادہ ثواب عطا کروں گا۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص یہ چند راتیں پالے تو بے حساب ثواب اکٹھا کرے گا۔ تو حضور پاکۖ کی اُمت کو دوسری اُمتوں کے سامنے شرمندگی اور ندامت نہیں ہوگی۔ بلکہ بعض روایات میں یوں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! کیا آپ اس بات پر ناراض تو نہیں کہ میں نے آپ کو سب رسولوں علیھم الصلواة والسلام سے آخر اور آپ کی اُمت کو سب اُمتوں کے پیچھے بھیجا۔ عرض کی:یا اللہ! ہرگز نہیں، فرمایا! حبیب! آپ کو اس کی حکمت معلوم ہے؟ عرض کی یااللہ! تو بہتر جانتا ہے۔ فرمایا:اس میں حکمت یہ ہے کہ تمام اُمتوں کے عیب آپ کی اُمت کے سامنے ہوں اور آپ کی اُمت کے عیب کسی کے سامنے نہ ہوں تاکہ طعنہ نہ دے سکے بلکہ آپ کی اُمت کے عیب میرے سامنے ہوں یا آپ کے میں غفور رحیمہ ہوں اور تو رئوف رحیمہ ہے۔ سورہ خان میں لیلة مبارکہ سے مراد شعبان العظم کو پندرہویں رات ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس رات میں نزول قرآن کا فیصلہ ہوا اور رمضان المبارک کی ستائیسویں رات میں نزول قرآن شروع ہوا اسے لیلة القدر کہتے ہیں۔ امام رازی رضی اللہ عنہ اپنی تفسیر کبیر میں شعبان العظم کی پندرہویں رات کے چار نام ذکر کئے ہیں۔ لیلة مبارکہ، لیلة البراء ة، لیلة الصل، لیلة الرحمہ، امام رازی فرماتے ہیں کہ جس طرح کوئی عامل متعلقہ اشخاص سے خراج وصول کرکے انہیں رسید دے دیتا ہے۔ اور ان کے بارے میں لکھ دیتا ہے کہ تم لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے۔یونہی اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کو پروانہ برات لکھ دیتا ہے اور عطا فرما دیتا ہے۔
شب برات میں امر حکیم کا فیصلہ ہوتا ہے یعنی کس نے پیدا ہونا ہے کس نے حج کرنا ہے کس نے عمرہ کرنا ہے۔ کون فوت ہوگا۔ اور اس کو کتنا رزق دیا جائے گا۔ باقی اس رات میں عبادت وریاضت کی بڑی فضلیت ہے۔ دو رکعتیں ادا کرنے کا ثواب چار سو سال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہے۔ مزید نوافل کا کتنا ہوگا اس کا اندازہ ہماری عقلیں نہیں لگا سکتیں۔ اس رات میں بندگان خدا کی مغفرت ہوتی ہے۔ تمام مومنین کی بخشش ہوتی ہے سوائے بعض بدبختوں اور بدنصیبوں کے ان کے بدترین اعمال کی وجہ بنتے ہیں۔ وہ بدبخت پانچ قسم کے لوگ ہیں۔ کاہن وہ شخص جو اپنے آپ غیب بتانے کا مدعی ہو اور سچ اور جھوٹ کو ملا کر لوگوں کو بتائے۔ جسے ہماری اصطلاح میں بخولی کہتے ہیں۔2کینہ ور۔3۔شرابی۔4ماں باپ کا نافرمان5۔زنی العیاذباللہ، اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا فرمائے جن سے وہ اور اسکا رسول علیہ الصلواة والسلام راضی ہوگیا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here