بالآخر پاکستانی توشہ خانہ کوئلے کی وہ کان ثابت ہوئی، جس میں سبھی نے اپنا منہ کالا کیا ہوا ہے۔۔۔۔ دنیا بھر میں توشہ خانہ حکومتی عہدوں پر متعین افراد کو ملنے والے قیمتی تحائف کو محفوظ کرنے والی وہ جگہ ہے جہاں ملنے والے تحفوں کی صورت میں قومی غیرت قیام پذیر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ دور نہیں پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار ایک ٹی وی شو میں توشہ خانہ میں ان کو ملنے والے تحائف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تحائف اس قدر قیمتی اور بعض اوقات نایاب ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر میں سجانے کو دل کرتا ہے۔ اس میں اگر کوئی قانونی قباحت بھی موجود نہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی توشہ خانہ سے کوئی تحفہ اپنے گھر لے جانا مناسب نہیں سمجھا، اور بعد ازاں انہیں تحائف کی نیلامی سے ملنے والی رقم کو بچیوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے قائم فنڈ میں جمع کروایا جاتا رہا۔ پاکستان میں اگرچہ توشہ خان کے حوالے سے قانون موجود ہے، کہ کسی بھی حکومتی شخصیت کو ملنے والا تحفہ کن شرائط پر وہ حاصل کرنے کے مجاز ہیں، مگر میرا ماننا یہ ہے کہ ذاتی مفادات کے قوانین پاکستان میں ایجاد کرنا کوئی انہونی بات نہیں، توشہ خانہ قوانین بھی انہی قوانین میں سے ایک ہیں، آج دنیا بھر میں ہم نے اپنا ایک تماشا بنا رکھا ہے، وہ ممالک جن سے پاکستانی حکام کو تحفے ملتے رہے، وہ کیا سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے تحفوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا گیا،کس طرح یہ تو پھر پاکستانی حکومتی شخصیات کی لالچ کا محور بنی، اگرچہ اس میں ابھی تک پاکستان کے ججوں اور جرنیلوں کو ملنے والے تحائف کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں، سچ تو یہ ہے کہ اس کا ذکر کرنا ممکن بھی نہیں وگرنہ دور دور تک آپ کا ذکر کرنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ پاکستان کی حکومت وقت نے اگرچہ اس وقت توشہ خانہ کے حوالے سے نئی پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کو ملنے والے تحفے پر ان کی روش کو چھپانے کی جو کوشش کی ہے اس کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہی ہے کہ اب ہم محتاط انداز میں ان تحفوں پر ہاتھ صاف کیا کریں گے۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں دنیا میں ہماری حیثیت اتنی نہ رہ جائے کہ جب کوئی پاکستانی حکام کو کوئی دے تو ساتھ میں یہ ہدایت نامہ چسپاں نہ ہو کہ یہ تحفہ قابل فروخت نہیں ہے، مختصرا کہ پاکستانی حکمرانوں نے توشہ خانہ پر جس طرح ہاتھ صاف کیے ہیں، لگتا ہے کہ یہ توشہ خانہ نہیں بلکہ اشرافیہ کا چوسہ خانہ ہے۔
٭٭٭