”انکوائری کمیٹی”

0
13

کمشنر راولپنڈی اور آر پی او راولپنڈی دونوں ایک ساتھ الیکشن پولنگ اسٹیشن کا جائزہ لیتے رہے ہیں ان میں سے ایک نے پریس کانفرنس میں اعتراف جرم کر لیا ،دوسرا طویل رخصت پر بیرون ملک روانہ ہو گیا چیف الیکشن کمشنر نے انکوائری کمیٹی بنا دی ہے اور اس کمیٹی کی سفارشات پر فیصلہ چیف جسٹس سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے ،سوچیں دھاندلی کا الزام بھی ان دونوں چیفس پر لگا ہے اور الزام لگانے والا کوئی چھوٹا موٹا آفیسر نہیں ،کمشنر راولپنڈی ڈویژن جو کہ سب سے طاقت ور کمشنر گنا جاتا ہے کہ وہاں جی ایچ کیو ہے ،ریٹائرڈ اور حاضر سروس آفیشلز اور ان کی فیملیز کا کمشنر جو ان کی خدمت کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا ہے سول سرونٹ کا مطلب اس سے زیادہ اور کیا لیا جا سکتا ہے الزام اسی کمشنر نے لگایا ہے جس نے خود کو نہ صرف پولیس کے حوالے کر دیا ہے بلکہ سزا بھی تجویز کر دی ہے ۔الیکشن میں دھاندلی کا الزام چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پر ہے، انصاف کا تقاضہ ہے کہ یہ دونوں اپنے عہدوں سے سبکدوشی اختیار کریں یا پھر کمیٹی فارمنگ میں حصہ نہ لیں اور اپنے معاملات کو اس وقت تک مینجمنٹ کی حد تک محدود کر دیں کہ جب تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں ہو جاتا مگر جو ایگزیمپل کمشنر لاہور نے سیٹ کر دی ہے یا اس سے پہلے خان حکومت میں زلفی بخاری نے سیٹ کی تھی وہ شاید ان کے بس کی بات نہیں ہے، اتنا دل گردہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس آپشن پر غور کیا گیا ہو مگر بنی بنائی گیم جس کے یہ صرف مہرے ہیں انکے اوپر بیٹھا ان کاطاقت ور ترین باس وہ یہ گیم خراب کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دے سکتا ،ان کو بھی نہیں، کہ اسے بھی اپنے سے بڑے بیرونی آقا کو جواب دینا ہے لیکن عوام کو کسی ایرے غیرت یا خاص بندے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنا غصہ سب سے چھپ کے چار بائی چار کے بوتھ میں اتار آئے ہیں ویسے ہمارے ہاں جن معاملات کا کوئی نتیجہ نہیں نکالنا ہوتا ان کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بنا دی جاتی ہے، موجودہ انتخابات کی کہانی ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ الیکشنز کا ٹریلر ہی معلوم ہوتی ہے ۔2013 کے انتخابات کو عمران خان نے ‘آر او کا الیکشن’ قرار دیا تھا چونکہ تحریک انصاف اْن انتخابات میں ہار گئی لہٰذا وہ پاکستان کے متنازع ترین انتخابات قرار پائے اور 35 پنکچر کے بیانیے کے ساتھ ایک اور سسٹم حرکت میں آیا اور دو متوازی ضمیر ایک وقت میں کام کرنے لگے۔ 2018 میں قبل از اور بعد از انتخابات دھاندلیاں ‘آر ٹی ایس بیٹھ جانے’ کے باوجود یوں درست قرار پائیں کہ اْن انتخابات میں جیتنے والی جماعت تحریک انصاف تھی جس طرح 2002 کے انتخابات میں ‘ضمیر’ جگا کر حکومت بنائی گئی بالکل اْسی طرح 2018 کے انتخابات میں ایک الیکشن کمشنر کا ضمیر جاگا اور بعد میں وہی ضمیر پارلیمنٹ کے باہر دھرنوں میں شمولیت اختیار کرنے لگا۔ 2024 کے انتخابات میں بھی مبینہ دھاندلی کے الزامات ‘سنگین ترین’ ہیں۔ صفت کی تیسری ڈگری کا یہاں استعمال کرنا یوں ضروری ہے کہ کہیں مبادا اِن انتخابات کو شفاف تصور نہ کر لیا جائے۔ ابھی حال ہی میں ایک سول افسر کا ‘ضمیر’ انتخابات سے دس دن بعد جاگ اْٹھا ہے اور حالیہ انتخابات کی صحت کو متنازع بنا رہا ہے۔خیر ضمیر کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے اگر ابدی نیند نہ سو گیا ہو اور جگانے کے لیے نہ تو اقبال کی نظموں کی ضرورت ہے اور نہ ہی فیض صاحب کے انقلابی کلام کی۔ البتہ ‘فیض یاب ضمیروں’ کی کسی طور کمی نہیں ہے۔ ضمیر جگانے کے لیے مخصوص حالات اور احکامات کی ضرورت ہے، کبھی سسٹم بنانے کے لیے اور کبھی سسٹم گرانے کے لیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سازی کے لیے وزارت اعظمیٰ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here