مزدور اور حاکم کی تنخواہ برابر!!!

0
149
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

سرکار دو عالم کا وصال ہوچکا ہے۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا بطور خلیفہ انتخاب ہوچکا ہے۔ مدینہ طیبہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کپڑے کا کاروبار تھا۔ جو ہوش سنبھالتے ہی وہ کر رہے تھے۔ مکہ سے لیکر مدینہ طیبہ تک ایک نیک نام تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ شام کا سفر بھی بطور تاجر کر چکے تھے تاجروں نے سفر وحضر میں سیدنا صایق اکبر نیک نام پایا۔ اور تجارت کرتے ہوئے لگ بھگ زندگی کے ساٹھ سال گذار چکے تھے۔ اب آپ کے سامنے سب سے بڑا مرحلہ گھر کا خرچہ کیسے چلایا جائے۔ سوچا اگر میں مارکیٹ میں اپنی دکان پر بیٹھوں گا۔ تو لوگ خلیفہ سمجھ کر تعلقات بڑھانے کیلئے میری طرف ہی رخ کریں گے۔ تو یہ مخلوق خدا کے ساتھ ناانصافی ہوگی چنانچہ نوزائیدہ اسلامی ریاست کا پہلا بجٹ بنانے کیلئے مجلس شوریٰ طلب کی سرفہرست ایجنڈا خلیفہ المسلمین کی تنخواہ کا تھا۔ ساری زندگی ٹھاٹھہ باٹھ سے گزاری تھی اب شوریٰ کے ممبر پریشان تھے۔ ان کی سابقہ زندگی کے شایان شان تنخواہ مقرر کی جائے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی رائے سے نوازا کسی نے کچھ کہ اور کسی نے کچھ آخر میں آپ سے رائے طلب کی گئی۔ آپ نے فرمایا آپ مدینے پاک کے ایک مزدور کے برابر میری تنخواہ مقرر کردیں عرض کیا گیا حضور مزدور کی تنخواہ تو بہت کم ہوتی ہے اس سے آپ کا گذارا نہیں ہوگا۔ تب اسلامی تاریخ کے اس سب سے پہلے اور بڑے حکمران نے آنے والے حکمرانوں کے لئے ایک تاریخی بات کہی۔ اور اسلامی بجٹ کا رخ بھی متعین کردیا۔ فرمایا تو اچھا ایسا کریں۔ مزدور کی تنخواہ بڑھا دیں۔ میری تنخواہ خود بخود بڑھ جائے گی اور میری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔ یہ اس حکمران کا فیصلہ تھا جو حکمرانی کے لئے خلیفہ نہیں بنا تھا۔ وہ اسلامی ریاست کے لئے خلیفہ بنا تھا۔ تاکہ مخلوق خدا کی خدمت کرسکے۔ ریاست مدینہ کا وقار بلند کر سکے۔ فرمایا نیکی اور پرہیز گاری اپنی جگہ لیکن شہری حقوق سب کے برابر ہیں نہ بڑا، نہ چھوٹا، نہ امیر، نہ غریب، ہاں اگر کوئی اپنی محنت اور ہمت سے تجارت میں پیسے کما لیتا ہے تو اس کا حق ہے۔ بلکہ ایک مرتبہ مقرر کردہ تنخواہ میں حلوہ پک گیا۔ بیوی سے پوچھا یہ تو میری تنخواہ میں نہیں پک سکتا آپ نے کیسے بنا لیا۔ عرض کی ایک دمڑی بچاتے بچاتے کئی روز کے بعد اس منزل تک پہنچی ہوں کہ حلوہ بنا سکوں۔ آپ نے بیت المال کے خازن کو خط لکھا کہ میری تنخواہ میں سے ایک درہم کاٹ لیا جائے۔ سوائے اہل اسلام خصوصًا اے پاکستان کیا ریاست مدینہ کے پہلے خلیفہ نے جو معیار قائم کیا تھا ،ہم واقعی ویسی ہی ریاست مدینہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یا صرف ہم دھوکے کیلئے ریاست مدینہ کا نام استعمال کر رہے ہیں حالانکہ ہونا تو یہی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بجٹ بھی اسلامی بجٹ ہونا چاہئے تاکہ ہر شہری کو مساوی حقوق مل سکیں۔ صدیق اکبر تیری عظمت کو سلام۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here