معاشی بدحالی کا شکار پورا عالم ہے! !!

0
120
پیر مکرم الحق

امریکا سمیت پوری دنیا کے ممالک معاشی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ برطانیہ ،جرمنی اور فرانس جیسے یورپی ممالک میں بھی لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ روس جس نے یوکرین پر حملہ کرکے عالمی حالات میں تنزلی پیدا کی ہے وہ بھی دن بدن انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ لیکن اس عالمی بدحالی کی پوری ذمہ داری پیوٹن پر ڈالنا بھی مناسب نہیں ہوگا۔ حالات کا بگاڑ2021کے اوائل سے شروع اس وقت ہوا جب کرونا وائرس سے سامنے آیا ہم سب نے دیکھا کہ ہندوستان جیسے معاشی قوت کے مرنے والے لوگ سڑکوں پر دم توڑنے لگے شمشان گھاٹوں میں مردوں کو جلانے کی لکڑی ختم ہوگئی۔ کرونا وائرس سے مرنے والے لوگوں کی تعداد اب تک گیارہ لاکھ94ہزار کو پہنچ گئی ہے۔35کروڑ کی آبادی کا یہ ملک جو اس وقت دنیا کا ایک طاقتور ترین ملک ہے جہاں پر طبی سہولتوں کو عالمی سطح پر سراہاجاتا ہے وہ بھی اربوں ڈالر سے کرونا کو ختم کرنے کی کوشش کے باوجود گیارہ لاکھ لوگوں کو بچا نہیں سکا۔ امریکا میں کرونا سے پہلے پیٹرول کی قیمت تین ڈالر کے قریب تھی جوکہ کرونا کے عروج پر پہنچتے6ڈالر تک جا پہنچی۔ امریکا میں لوگوں کو کھانے کیلئے خیراتی اداروں کے باہر اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے میلوں اور کوسوں تک لائین لگا کر کھانا لینا پڑا۔ ان دو سالوں یعنی2021او2022میں مہنگائی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اور بائیڈن حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے کی تمام کوششوں کے باوجود نومبر2022کے انتخابات میں بائیڈن حکومت کی کارکردگی کافی بہتر رہی ورنہ تاریخی طور پر صدر کی سیاسی جماعت کو دو سال بعد ہونے والے وسطہ مدتی انتخابات میں بدترین شکست ہوتی ہے۔لیکن امریکی عوام سیاسی شعور رکھتی ہے اور یہاں کے سائبر قوانین سخت ہیں ،کوئی بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بے بنیاد الزامات لگانے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ اظہار رائے کی مکمل آزادی کے باوجود کسی پر بھی تہمت لگانے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور قانون کی بالادستی اس قدر ہے کہ سابق صدر ٹرمپ باوجود اپنی بے پناہ مقبولیت کے اپنے جرائم کے ڈھیر سارے مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور امریکی عوام آہستہ آہستہ ٹرمپ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ نظام انصاف اسقدر طاقتور ہے کہ باوجود اس حقیقت کے کہ امریکی سپریم کورٹ میں نو میں سے چھ جج صاحبان کو ریپبلکن صدور نے مقرر کیا ہے جن میں سے لیکن قدامت پرست ججوں کو سابق صدر ٹرمپ نے اپنی حکومت میں مقرر کئے تھے۔ لیکن ان تین جج صاحبان نے بھی صدر ٹرمپ کے جرائم کے مقدمات میں کوئی نرمی نہیں کی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان مقدمات کے نتیجہ میں صدر ٹرمپ آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے پائیں۔ جبکہ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں عمران خان عدالتی احکامات کو خاطر میں ہی نہیں لاتے اپنے ہی ملک کی فوج پر جائز ناجائز الزامات کی بھرمار کئے ہوئے ہیں اور جو معاشی تنزلی انکے لیکن سال نو ماہ میں آئی تھی اب اسکی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈال رہے ہیں جس کی حکومت دس ماہ سے بھی کم رہی ہیں اور میڈیا اور سوشل بھی عمران خان کو فری پاس دے رہی ہے۔ کیا کیا اسکینڈل سامنے نہیں آئے جس میڈیا ہائوس نے ان معاملات کو عوام کے سامنے لائے اس کے ممالک کو کئی ماہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں پھر بھی خان صاحب ہچکچاہٹ کے بغیر کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں میڈیا آزاد تھا اپنی اچھی پالیسیوں کو اپنی جھولی میں ڈالتے ہیں اور غلط کاموں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیکر عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ راقم کو لاکھ اختلافات ہیں پی ڈی ایم کی حکومت اور بہت خامیاں ہونگی اور ہیں لیکن اس کل جماعتی حکومت کی ایک بات تو تسلیم کرنی پڑیگی کے جن جماعتوں نے حکومت تشکیل دی ہے وہ کوئی ٹیسٹ ٹیوب تجربے کی وجہ سے بنی نہیں ہیں انکا ایک تاریخی پس منظر ہے یہ کسی پیرا شوٹر کی جماعت نہیں جو بنیادی طور پر ون مین شو ہے اگر الطاف حسین ون مین شو تھا تو عمران خان بھی ون مین شو ہے آج اگر سوشل میڈیا کے قوانین سخت کرکے پی ٹی آئی ٹرولر کو ختم کیا جائے تو آج جو انکے جلسوں میں لوگ آتے ہیں وہ بدتر ختم ہوجائیں گے۔ قرعونیت رکھنے والے اس فراڈ لیڈر کی کچھ حقیقت سامنے آگئی ہے کچھ آجائیگی۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here