آج کل کے مسلمان اکثر اس لئے پریشان رہتے ہیں کہ دعا کیسے مانگی جائے، کتنی مانگی جائے، کب مانگی جائے، کس طریقے سے مانگی جائے ،کون سی دعا پڑھی جائے، کون سی دعاقبول ہوگی، یا کونسی دعا اللہ کے رسول نے بتایا ،یاسلام کے ابتداء دور میں دعا، اذکار، تسبیحات ،تو موجود تھے لیکن وظیفہ موجود نہیں تھا یہ وظیفہ بعد کے ادوار کی پیداوار ہے خاص کر ہمارے پاک و ہند میں یہ وظیفہ اتنا زیادہ اہم ہو گیا کہ ہر دعا کی قبولیت کے لیے۔ ہر مشکل پریشانی سے نکلنے کے لئے۔ مختلف طرح کے وظائف عام ہونے لگے ،ہم میں سے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اس کام کے لیے کوئی وظیفہ بتادیں گویا کہ وظیفہ دین کل ہے زندگی گزارنے کے لئے جب ہم اسلام کے طریقے کو جاننا چاہتے ہیں تو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونا ضروری ہے ،قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ایھاالذین امنوادخلو فی سلم کافہ لوگو جو ایمان لائے ہو پورے کے پورے دائرے ایمان میں داخل ہوجا کسی دعا، قرآنی آیات،قرآن کی سورتوں یا اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کو بار بار دہرانے کو وظیفہ) کہتے ہیں یہ وہی اذکار، مسنون دعائیں، قرآنی آیات ،اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعاکہا ہے اس لئے ہمیں بھی دعا ہی کہنا چاہئے، اس لئے کہ دعا کے معنی پکارنے کے ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ،میں اس کی پکارسنتا ہوں اور جواب بھی دیتا ہوں، جب ہم اللہ تعالیٰ کو پکاریں تو تڑپ تڑپ کر پکاریں اور دل سے پکاریں تو وہ فریاد ضرور سنے گا، بہترین پکار یادعا کی شکل وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو سکھائی ہے، اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں اور جہاں کہیں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی غلطی یا لغزش ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کی تصحیح فرما دیں ۔جیسا کہ سور عبس؛ اور سور تحریم ؛میں وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصحیح فرمائی ہے ۔اپ کی ساری دعائیں ساری باتیں اورگفتگو واحکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں آپ صلی اللہ وسلم ویسے بھی جو امع الکلام تھے لہٰذا آپ صلی اللہ وسلم نے جو بھی دعائیں سکھائی ہیں ان میں خاص طور سے صبح اور شام کی مسنون دعائوں کو مضبوط پکڑ ے رہناان کو ہرگز نہ چھوڑنا ،فجر کی نماز کے بعد اشراق سے پہلے اور شام کو عصر کی نماز کے بعد عشا تک شام کی دعا کو ضرور پڑھ لیں ۔ یہ ہر ہر شر سے حفاظت کی دعائیں ہیں۔ ہر طرح کی بیماری،جادو ،نظربد ،حسد ،حاسد،اور دینی و دنیاوی ہر طرح کے شر سے حفاظت ان دعاں کی بدولت ملتی ہے ۔ہر خیر کی طلب کے لیے ،ہمارے دن بھر کے تمام معاملات کو سنبھالنے کے لیے یہ دعائیں کافی ہیں، اللہ اور رسول سے زیادہ کون ہمیں حکمت کے ساتھ دعائیں سیکھا سکتا ہے ،دعاں کو ترجمہ کے ساتھ ضرور پڑھیں تاکہ ہمیں پتہ ہو کہ ہم اپنے رب سے کیا کیا مانگ رہے ہیں جب ہمیں دعائوں کا ترجمہ معلوم نہیں ہوتا تو ہم گھبرا گھبرا کر دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ اس پریشانی میں کیا پڑھیں ۔اس غم کے لیے کون سی دعا ہے ۔اس مشکل سے نکلنے کے لیے کون سا وظیفہ پڑھیں ۔اس مسئلہ سے نکلنے کے لیے کون سا وظیفہ پڑھنا چاہئے ۔ تڑپ تڑپ کر اللہ سے دعا مانگنا اور یہ سوچ کر مانگیں کہ یہ ہمارے لئے کافی ہے جو اللہ اور رسول اور صحابہ نے ہمیں سکھائی ہیں ،دعا کا دوسرا اصول یہ ہے کہ اس کے علاوہ کچھ دعائیں ہیں جو ہمارے بزرگوں نے اللہ سے مانگیں اور اللہ نے ان کی دعائوں کو قبول کیا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ آیت پڑھ لو اس آیت کی برکت اور فضیلت ہے میں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے انشا اللہ تمہیں بھی اس سے فائدہ ہوگاتو اس وقت ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ تو سنت سے ثابت نہیں ہے یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھائی یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہیں بتایا بلکہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ قرآن تو سارے کا سارا شفا ہے اگر کسی نے کہا کہ فلاں سورة کو اتنی دفعہ پڑھ لو کسی آیت کا ورد کرلو ۔ اللہ کے صفاتی ناموں کو اتنی دفعہ پڑھ لو تو اس دعا کو پڑھنے میں ہرج نہیں ۔ بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ قرآن تو دلوں کے لئے شفا ہے ،اس لیے قرآن کی کسی بھی آیت کو جس نیت سے بھی پڑھا جائے گا انشا اللہ تعالی اس کام کے لیے شفا یاب ہوگا اور وہ ہمیں فائدہ دے گا خود اللہ کے رسول نے بتایا ہے کہ زندگی کے سارے مسائل کا حل اس قرآن میں موجود ہے تو کسی بھی آیت یا سورت کا ورد کرنا کسی مشکل کسی غم یا کسی پریشانی دُکھ میں بیماری میں یا حاجت روائی کے لئے پڑھنا کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں ہمیں قرآن سے مزید قریب ہی کریں گی اور عمل کی ترغیب بھی ملے گی ان شا اللہ تیسرا اصول جو دعائوں کا ہے وہ یہ کہ کسی نے کوئی دعا ہمیں بتائیں ہے تو اگر وہ دعا عربی میں ہے اور ہمیں عربی پر اتنی گرفت ہے کہ ہم اس کے معنی اور اس کے تراجم کو سمجھ سکیں اس کے مفہوم کو ہم خود جان سکیں کہ اس میں کوئی شرکیہ کلمات نہیں ہے ۔قرآن اور سنت سے نہیں ٹکراتا ہے تو اس کو پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس میں کسی بھی طرح کا شک محسوس ہو تو اس سے دور ہی رہنا چاہئے، اس لیے کہ اللہ اور رسول صلی وسلم کی تعلیمات میں یہ بات موجود ہے کہ شک کی چیزوں سے دور رہو تو ایسی چیزوں کو چھوڑ دینا اور اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے یہ مختلف اسکالرز کی دعائوں کے بارے میں تین رائے ہیں۔
ویسے بہتر تو یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاں کو اور قرآن میں جو تمام انبیا کی دعائیں ہیں ان سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ان کا ٹیچر خود رب العالمین ہے اس نے خود اپنے رسول کو سکھائی ہیں تو کیوں نہ ہم اس رسول کی دعاں ہی کو حرز جان بنا لیں اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیاور ان دعاں کو پابندی سے پڑھنے کی ان کو جاننے کی ان کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنے کی اور معنی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ دعائیں اتنی زیادہ ہیں اور مختلف مواقع کی مختلف دعائیں ہیں صبح شام کے علاوہ اگر کوئی مشکل ہو تو حاجت کی دعا اہے ۔اگر قرآن سمجھ میں نہیں آرہا ہو تو فہم القرآن کی دعا ہے ۔اگر قرآن یاد نہ ہو رہا ہو تو حفظ قرآن کی دعا ہے ۔اگر ہم کسی معاملے میں پریشان ہوں ہو تو اس کے لئے استخارہ کی دعا ہے۔اگر گھر میں کوئی خوشی ہو تو بچوں کے عقیقے ہو خوشیاں ہوں اس کے لئے دعائیں ہیں ۔پریشانی کو دور کرنے کی دعائیں ہیں ۔رات کو نیند ٹوٹ جائے اور بستر پر ہوں۔ کسی طرح کی بے چینی ہو اس کی دعائیں ہے۔ گھر سے باہر نکلنیکی دعائیں گھر میں داخل ہونے ۔نیا لباس پہننے ۔ کپڑے تبدیل کرنے۔آئینہ دیکھنے کی ۔ دودہ پینے کی دعا۔ پانی پینے کی دعا ۔کھانا کھانے کی دعا ۔ بازار جانے کی دعا ہر ہر کام کے کرنے اور اس میں برکت ڈالنے اور اس کے شر سے بچنیکے آداب طریقہ۔ سلیقہ سیکھایا ہے ہمارے رسول نے اگر ہم خود کواس سے جوڑ لیں تو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت انشا اللہ ہمیں ضرور نصیب ہوگی اس لئے کہ ہم نے اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو جاری کیا جب کہ سنتیں متروک ہو چکی ہیں ان کو زندگی میں لائیں اور دوسروں کو بھی بتائیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تو رکھتے ہیں آس کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن جو کچھ آپ نے کرنے کے لئے کہا اس کو کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اگر ہم اس طرح تیاری کریں جیسا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے شب و روز اس طرح گزارو تو یقینا ایک دن بڑی بڑی سنتوں پر بھی عمل کرنا ہمارے لیے آسان ہو جائے گااور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن جب ہم اللہ کے رسول سے ملیں گے تو انشاللہ نبی کریم کے ہاتھوں حوض کوثر کا پانی پینا نصیب ہوگا اور آپ کی شفاعت نصیب ہو گی امین ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے زیادہ سے زیادہ سنتوں کو جاننے والا ماننے والا عمل کرنے والا اور پھیلانے والا بنائے اور اس کو ہمارے لئے آسان کر دے آمین یا رب العالمین
٭٭٭