یہ امر قیاس از یقین ہے کہ پاکستان کا ڈرامہ نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ اِس میں کام کرنے والے اداکار ، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر انتہائی محنت سے کام کرتے ہیںاور ناظرین کی طبیعت کو بہلاتے ہیں یا شاید خراب بھی کردیتے ہیں، کیونکہ ڈرامے میں رونے دھونے یا ہارٹ اٹیک کے کر دار کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ یہ ایک اور بات ہے کہ بھارت میں پاکستانی ڈراموں کی پذیرائی ہوتی ہے یا نہیں، چونکہ میں بھارت میں نہیں رہتا ہوںاِسلئے اِس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ البتہ بھارت یا بنگلہ دیش کے اخباروں میں پاکستانی ڈراموں کا تذکر ہ تقریبا” نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈرامہ معاشرے کو کچھ اچھی باتیں سکھانے کا بہترین وسیلہ ہے۔ لیکن بعض پاکستانی ڈرامے اِس سے اپنی راہیں جداگانہ اختیار کر لیں ہیں۔ مثلا”ڈرامہ ” دِل لگی ” کے ایک مکالمے میں بیوی (انمول ) اپنے شوہر ( مُہید) کو یہ کہتی ہے کہ ” میں تمہارے حرام کے کمائے ہوے پیسے کو نہیں لینا چاہتی.”حالانکہ ڈرامہ میں کسی بھی کردار سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ مُہید کا ذریعہ معاش غیر اخلاقی ہے۔ اور پھر اِس کے باوجود بھی وہ اُسی شوہر سے ایک بھاری رقم اینٹھ لیتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈرامے ”دِل لگی ” میں شروع سے آخر تک انمول اپنے شوہر کے جذبات کو مجروح کر تی رہتی ہے، اُسے ستاتی رہتی ہے ، اور اُسے حقیر سمجھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑکیاں اِس طرح کے ڈرامے سے کیا سبق حاصل کر سکتی ہیں؟ کیا وہ یہ نہیں سوچ سکتی ہیں کہ اپنے شوہر کو اپنا غلام بناکر رکھو، شوہر جو دِن بھر محنت و مشقت کرکے گھر آئے اُسے لعن طعن سے نوازو ، اُسے یہ باور کراؤ کہ گھر کا سارا نظام اُس کی وجہ کر خستہ حالی کا شکار ہے اور یہ سوچو کہ بیوی ہی گھر کی ملکہ ہوتی ہے ، اور شوہر کو ہر قیمت پر اُس کا تابعدار ہونا چاہیے۔ بیوی شوہر کی ذہنی آسودگی ، جسمانی خواہشات کی پیکر ہوتی ہے، کیا شوہر کو خدا کی دی ہوئی اِس نعمت سے دیدہ و دانستہ طور پر محروم رکھنا سماج میں برداشت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستانی ڈراموں میں یہ روش عام ہے۔ اِسی طرح کے ڈرامہ کو دیکھ کر میرے ایک دوست کی بیوی کا دماغ اتنا زیادہ خراب ہو گیا کہ اُس نے اپنے شوہر کیلئے کھانا پکانے سے انکار کر دیا ۔ اُس کی دلیل یہ تھی کہ وہ آزادانہ خیال کی پروردہ ہے، اُس کے نکاح نامہ میں یہ کہیں بھی درج نہیں ہے کہ وہ کھانا پکائے گی ، گھر کا کام کاج کرے گی، لانڈری کے فرائض کو انجام دے گی، حتی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سوئے گی۔ اُن دونوں کے اختلافات محلے کے بذرگ تک پہنچ گئے، لیکن اُس کے فورا” بعد اُن دونوں میں ہاتھا پائی کی نوبت آگئی اور بیوی نے پولیس کو بلا لیا۔ پولیس میرے دوست کو گرفتار کرکے لے گئی، اور اِس شرط پر رہا کیا کہ وہ واپس اپنے گھر نہیں جائیگا۔ میرے دوست صاحب اپنے دوسرے دوست کے گھر میں رہنے لگے۔ اِسی دوران لڑکی کے والد پاکستان سے یہاں آں پہنچے اور اُنہوں نے اُن دونوں میں پھر ایک دفعہ سمجھوتہ کر ادیا۔ سمجھوتے کے رو سے میرے دوست کو گھر میں جھاڑو دینے، لانڈری کے فرائض انجام دینے اور گروسری خریدنے کی ذمہ داری کو لینا پڑ گیا۔ میرے دوست کی بیوی کو یہ شکایت تھی کہ وہ شادی کے بعد ہنی مون کیلئے نہیں گئے تھے، لہذا 9 ماہ بعد جب اُن کے گھر میں بچے کی پیدائش ہونی چاہیے تھی وہ ہنی مون کیلئے فلوریڈا کا رخ کیا۔ مزید بر آں سوشل سرگرمی کیلئے یہ فیصلہ ہوا کہ وہ دونوں ہر ہفتہ کھانا کھانے کیلئے باہر جائینگے۔ لہذا یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ شادی کو مستحکم کرنے کیلئے ہنی مون پر جانا ضروری ہوتا ہے۔ رہی بات پاکستانی ڈرامہ دیکھنے کی تو اُن دونوں نے صرف لوکل چینل کا اینٹینا لگوا لیا ہے ، اور پاکستانی چینلز کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ جب اُن کی بیگم ذہنی طور پر اور بھی زیادہ پختہ ہو جائیگی ، ڈرامہ کی کہانی کو اپنی کہانی سمجھ کر اپنے سر پہ مسلط کرنے سے باز آجائیگی تو پھر وہ پاکستانی ڈرامہ دیکھنا شروع کر دینگے۔لیکن ”دِل لگی” ہی ڈرامہ ساری خامیوں کا شاہکار نہیںبلکہ اِس کے بعد بننے والا ڈرامہ ” تیرے بِن ” جو جیو چینل پر دکھایا جارہا ہے اخلاق سوزی کے سارے ریکارڈ کو توڑ دیا ہے۔ حسب معمول جیو چینل پر پیش کئے جانے والے دوسرے ڈراموں کے اِس میں بھی اِس روایت کو برقرار رکھا گیا ہے کہ شوہر کی جس طرح ممکن ہے تذلیل کرو، اُس کی ہر بات کی ترکی با ترکی جواب دو۔ بیوی آزادانہ خیال کی مالک ہے اِس لئے وہ جہاں بھی چاہے شوہر کو بتائے بغیر گھر سے باہر چلی جائے۔ حتی کہ نکاح کے وقت بھی پنگا ڈال دو اور ” ہاں ” کہنے سے انکار کردو۔ دوسری لڑکیوں کو بھی اپنی روش پر گامزن کرنے کی کوشش کرو اور اُنہیں بھی گھر سے فرار ہونے پر مائل کرو.لیکن ڈرامہ کا سب سے خطرناک کردار اُس وقت پیش آتا ہے جب یمنی زیدی رات کی تاریکی میں گھر سے فرار ہوجاتی ہے،وہ سر راہ سڑکوں پر پھرتی رہتی ہے۔ ڈرامہ میں تو خیر یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک شریف بس کنڈکٹر اُسے اپنے بس میں بیٹھالیتا ہے ، اور کرائے کے بجائے اُس کے سونے کی لاکٹ کو قبول کرلیتا ہے۔ یمنی زیدی بعد ازاں کراچی کے ایک ایسے ہوٹل میں قیام کرتی ہے جو دراصل بدکردار لوگوں کا آماجگاہ ہوتا ہے۔ پولیس اُس ہوٹل پر چھاپہ مارتی ہے ، لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ جیو کے مالک میر شکیل الرحمن جو فراڈ کے الزام میں چھ ماہ جیل کاٹ چکے ہیں اِس طر ح کا ڈرامہ پیش کرکے اپنے ملک کی خدمت کر رہے ہیں؟ہونا تو یہ چاہیے کہ جیو چینل اسلامی فرائض کی دھجیاں اُرانے ، نابالغ ذہنوں کو پرا گندہ کرنے کے الزام میں فوری طور پر بند کردیا جائے۔