ایک زمانہ تھا کے لوگ بہت بڑے خاندانوں میں رہتے تھے یہ بڑے خاندان دادا بچوں کے لئے اکسیر کا کام کرتے تھے۔ ان میں دادا دادی چچا، تایا، پھوپھی اور ساتھ میں نوکر چاکر ہوتے تھے۔ سب مل جل کر بھی رہتے تھے اور ایک دوسرے سے شکوہ شکایت بھی ہوتے رہتے تھے مگر ان سب میں بھی بچوں کی پرورش اچھی طرح ہو جاتی تھی۔ والدین پر اتنا جو بھی نہیں پڑتا تا بچے رشتہ داروں میں کھیلتے پھرتے کوئی کھانا کھلا دیتا کوئی پڑھائی کی ذمہ داری لے لیتا۔ چچا پھوپھی بغیر پیسے لئے ٹیوشن پڑھا دیتے۔ کوئی کپڑے سی کر پہنا دیتا، کوئی چچا تایا پھوپھی باہر کی سیر کرانے لے کر چلے جاتے۔ ماں کی بہت ساری ذمہ داریاں بٹ جاتیں تھیں باپ آرام سے کام پرسے آکر پائوں پھیلا کر سوتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ خاندان سمٹنے لگے وہی بچے جو بڑے خاندانوں میں پل کر جوان ہوئے ان کو شکایت ہوئی کے کبھی گھر میں سکون نہ ملا۔ ہر جگہ ہر کونے میں کوئی موجود جوان پر نظر رکھے ہوئے ہیں بلاوجہ ابا کی جگہ چچا تایا کی ڈانٹ سننے کو مل رہی ہے حالانکہ یہ وہی چچا تایا پھوپھی ہوتے ہیں جو مفت میں سیر کراتے ہیں پڑھاتے ہیں اور اپنی محبت بھی نچھاور کرتے ہیں مگر بہرحال نوجوانوں کے نظریات بدلے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو اپنی دنیا میں گھسنے کی کسی کو اجازت نہ دیں گے، میاں بیوی اور بچوں کا اپنا خاندان ہوتا ہے کسی اور کی مداخلت کیوں ہو۔ یوں خاندان بکھر گئے والدین الگ ہو گئے بہن بھائی الگ ہوگئے اور سب کے اپنے اپنے خاندان ہو گئے ان چھوٹے خاندانوں میں اس بات کا تو سکون ہے کے کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔ کوئی کسی پر نظر رکھنے والا نہیں مگر ایک عورت کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ بچوں کو کھلانے پلانے سے لے کر سکول لے جانا ڈاکٹر کے پاس لے جانا سارے بچوں کو اپنے ساتھ لے کر جائو یا پھر گھر میں اکیلے چھوڑو۔ بیمار ہو تب بھی اٹھ کر کھانا پکائو کے کوئی پکا کر دینے والا نہیں مگر کتنا بھی تھک کر گھر آئو خاص طور سے جاب کے بعد پھر بچوں کو لے کر باہر سیروتفریح کرانے لے کر جائو۔ باپ کی ذمہ داری الگ بڑھ جاتی ہے اب سونے کی جگہ بچوں کو ٹیوشن پڑھائو ان کا ہوم ورک چیک کرو۔ باہر سے سودا سلف لائو، غرض کے جو کام ایک مشترکہ خاندان میں بٹ جاتے ہیں وہ اب دو لوگوں کے کاندھوں پر آجاتے ہیں۔ وہ مگر اب لوگ دن بدن مشترکہ خاندان کے خلاف ہوتے جارہے ہیں اب سب کو اپنی آزادی اچھی لگتی ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ مشترکہ خاندان کے بچوں میں برداشت ہوتی تھی۔ روک ٹوک بھی برداشت کر لیتے تھے اور ہر کسی کا آنا جانا بھی مشترکہ خاندان میں رہنے والی عورتوں کے اندر بھی دوسروں کو برداشت کرنے کی عادت ہوتی تھی وہ پہلے ساس اور بعد میں بہو کو برداشت کر لیتی تھیں پہلے دیور بیٹھ کے بچے برداشت ہوتے تھے بعد میں پوتا پوتیوں کا شور بھی برداشت ہو جاتا تھا اب تو عورتوں میں بھی کوئی رشتہ نبھانے کی عادت نہیں رہی ہے وہ اکیلے رہنا پسند کرتی ہیں مگر بہو بیٹے کے ساتھ نہیں۔ باقی دوسرے رشتوں کا بوجھ بھی اب سنبھالا نہیں جاتا۔ یوں خاندان کا تصور بکھر چکا ہے سب ہی اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں مشترکہ خاندان میں جو بچت کا تصور تھا وہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے سب کے اپنے اپنے خرچے ہیں کوئی کسی کو کچھ دے نہیں سکتا۔ اپنے اوپر ہی خرچ کرنے کے لئے پیسے کم پڑنے لگے ہیں۔
بکھرے ہوئے خاندان خوش ہیں کے وہ سب اپنی اپنی زندگی جی رہے ہیں مگر مشترکہ خاندان میں بھی کیا برائی تھی ہر چیز کا اچھا اور برا پہلو ہوتا ہے لوگ اگر سمجھ دار ہوں تو اکٹھا رہنے کی کوشش کریں بہت خوش رہیں گے اگر سمجھ دار نہیں ہیں تو پھر بکھر ہی جائیں کے سب پر خلوص محبت ہی جوڑ کر رکھتی ہے۔
٭٭٭