وطن عزیز پاکستان اس وقت جن حالات سے نبرد آزما ہے، منیر نیازی کے اس شعر کی تشریح و تفسیر نظر آتا ہے ”میں ایک دریا کے پار اُتراا تو میں نے دیکھا۔ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو ” سیاسی و معاشی ناہمواری و غیر یقینی کیساتھ قدرتی آزمائشوں کا سامنا بھی ہے، جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں بائپر جوائے نامی تند و تیز طوفان بہت تیزی کیساتھ ساحل کی طرف بڑھ رہا ہے، سندھ کے ساحلی شہروں کیساتھ کراچی میں بھی کراچی کے ساحلی علاقوں کو سنگین خدشات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ الرٹ جاری ہو گئے ہیں، سمندر سے دور رہنے کیلئے دفعہ 144 نافذ ہے اور فوج سمیت امدادی ٹیمیں الرٹ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 15 کو کراچی کے ساحل سے ٹکرانے والا یہ طوفان (خدانخواستہ) شدید نقصانات کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ تیز ہوائوں اور طوفانی بارشوں کے سبب خصوصاً پختونخواہ میں جو بدترین صورتحال سامنے آئی، ناقابل بیان ہے، ایک ہی چھت تلے پانچ بچوں کی ہلاکت پر کون سا صاحب دل ہے جو نہ تڑپا ہو۔ بائپر جوائے کی تباہ کاریوں سے اللہ وطن عزیز کو محفوظ رکھے۔ ہمارا اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اس حقیقت کا احساس دلا سکیں کہ ہم بحیثیت قوم اس وقت جن حرکات و اعمال میں جکڑے ہوئے ہیں اور جس طرح ارباب بست و کشاد کے منفی روئیے اور کردار انسانیت و معاشرت بلکہ قومی حوالوں سے جاری ہیں وہ نہ دنیاوی طور پر مثبت ہیں اور نہ ہی فطرت کے ناطے قابل تحسین ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کسی قوم کے رہنما اور ذمہ دار راہ راست سے ہٹ جائیں تو دنیاوی اور قدرتی ناہمواریاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ فرعون، نمرود، شداد اور ہٹلر و مسولینی کے ظلم و بربریت کی داستانیں اس امر کا مظہر ہیں کہ جب بھی ظلم انتہاء کو پہنچا ہے تو انجام ہلاکتوں تباہی کو پہنچا اور قومیں ملیا میٹ ہو گئی ہیں، وہی بچے ہیں جو حق اور راہ راست پر رہے۔ پاکستان میں موجودہ حکمرانوں، ان کے سہولت کاروں نے حالات کو جس حد پر پہنچا دیا ہے وہ نہ ملک کیلئے بہتر نظر آتے ہیں اور نہ ہی عوام کے حق میں بہتر شمار کئے جاتے ہیں۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورتحال دن بہ دن خراب سے خراب ترین ہو رہی ہے۔ عوام ایک جانب اپنی زندگی برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہیں تو دوسری جانب انہیں اپنے حق خود ارادیت اور جمہوری کردار کی ادائیگی سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ خود غرض و نا اہل حکمرانوں نے سیاسی، معاشی و جمہوری حوالے سے محض اپنا اقتدار برقرار رکھنے کیلئے جو طویل حربے و ہتھکنڈے اپنائے ہیں، عدل و انصاف کی توہین کی ہے اور جمہوریت پر شب خون مارا ہے اس کی تفصیل سے آپ سب ہی واقف ہیں۔ ملک کے سب سے مقبول لیڈر اور عوام کے سچے و مصدقہ رہنما کو جمہوری پراسس سے محروم کر دینے کیلئے جو غیر انسانی و نفرت انگیز روئیے اختیار کئے اور عمران خان کو تنہا کرنے کی سازش کی گئی اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا 9 مئی کا واقعہ اسی کا شاخسانہ تھا۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر جس طرح تحریک انصاف کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کیلئے عمران کے ساتھیوں، عہدیداروں، جاں نثاروں پر ظلم و جبر کے ذریعے پی ٹی آئی سے منحرف کروا کے نئی سیاسی جماعت بنوائی گئی اور تائبین کو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل کر لیا گیا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جب بھی طاقتوروں کو ضرورت پڑی ہے کنگز پارٹی وجود میں لائی گئی ہے اور اسے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال کیا گیا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرتے چلیں کہ 50ء کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم چودھری محمد علی نے بھی مسلم لیگ سے علیحدہ ہو کر استحکام پاکستان پارٹی بنائی تھی لیکن مقتدرین کے اشارے پر بنائی گئی یہ پارٹی چل نہ سکی اور بعد میں مشرقی پاکستان کے بعض علماء کے اشتراک سے یہ جماعت نظام اسلام پارٹی ہو گئی تھی۔
جہانگیر ترین کی بنائی ہوئی اس جماعت کا مستقبل بھی کچھ اچھا نظر نہیں آتا اور پی ٹی آئی کے منحرفین و الیکٹیبل سیاستدانوں کی شمولیت کے باوجود عوامی حمایت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ملک میں تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جو تمام تر حکومتی سفاکیوں اور مظالم کے باوجود عوامی حمایت رکھتی ہے، پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی عمران خان پاکستانیوں کا بہترین اور محبوب لیڈر ہے، اس کی تازہ ترین مثال برطانیہ میں پاکستانیوں کی جانب سے 9 مئی کے تناظر میں حکومتی مظالم کے پوسٹر اور ٹن بینر آویزاں کیا جانا ہے۔یہی نہیں بیرون ملک مقیم پاکستان صحافیوں اور وی لاگرز کے ساتھ بیرونی ٹیلیویژنز پر اینکرز کے عمران کی حمایت میں پروگرامز اور عمران کے انٹرویوز ہیں۔ نا اہل حکمران اور ان کے سہولت کار عمران کی مقبولیت و پذیرائی سے اس حد تک گھبرا گئے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے پاکستانی چینلز پر عمران خان کا نام تک نہ لینے کی پابندی لگا دی، اگر کوئی اینکر، نیوز ریڈر یا مہمان لے تو بیپرلگا دیا جاتا ہے تو دوسری طرف بیرون ملک مقیم عمران کی حمایت میں بات کرنے والوں پر پاکستان میں مقدمات درج کرائے جا رہے ہیں۔
حق، سچ اور جمہوریت کیلئے جدوجہد میں بر سر پیکار عمران خان سے گھبرائے ہوئے نا اہل حکمران تمام تر منافرتوں ریشہ دوانیوں، مقدمات اور اس کی جماعت کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کے بعد عمران کی مقبولیت اور عوامی محبت کو متاثر کرنے میں قطعی ناکام ہیں۔ اپنی اس ناکامی کے خدشے کے پیش نظر وہ اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح عمران کو سیاسی منظر نامے سے ہٹایا جا سکے۔ فوج اور عوام، فوج اور عدلیہ کے درمیان اختلافی خلیج پیدا کرنے کیساتھ اب نا اہل حکومت نے تازہ ترین کام 9 مئی کے حوالے سے مقدمات، آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت چلانے کیلئے قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کر کے ایک اور کوشش کی ہے کہ کسی طرح بھی عمران کو انتخابی منظر نامے سے باہر رکھا جائے۔ ان غیر مقبول حکمرانوں کو بخوبی علم ہے کہ عمران کے مقابل ان کی دال کبھی بھی نہیں گل سکتی ہے، اسی لئے وہ اپنے سہولت کاروں، سرپرستوں کے آشیر باد سے ہر وہ اقدام کر رہے ہیں جو عمران سے ان کا پیچھا چھڑا سکے۔ کالم کی طوالت سے گریز کرتے ہوئے ہم یہی عرض کرتے ہیں کہ اکتوبر میں انتخابات کا شور و غوغہ کرنے، کنگز پارٹیوں کے قیام، ادغام، بجٹ کی مصنوعی خوشخبریوں اور عوامی خوشحالی کے دعوئوں کے باوجود انتخابات کا انعقاد ہنوز دلی دور است ہی ہے۔ ان نا اہل حکمرانوں کو یقین ہے کہ شفاف انتخاب ان کی شکست کا مقدر ہے اور عوام کا ووٹ عمران کیلئے ہی ہے۔ بصورت دیگر بھی جب یہ مصنوعی اتحاد انفرادی پارٹیوں کی صورت میں الیکشن میں جائیگا تو ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے ہی پھوٹنی ہے کہ یہ اکثریت و سبقت کیلئے ایک دوسرے کیخلاف ہی صف آرا ہونگے۔ ن لیگ و پیپلزپارٹی کے درمیان مخالفت کی خبریں تو ابھی سے گرم ہیں، کنگز پارٹیاں بھی سرپرستوں سے اپناحصہ مانگیں گی۔ جہاں تک عمران کا تعلق ہے اسے جتنا دبانے کی کوشش کی جائے گی عمران اپنے منشور، اصولی مؤقف اور جرات و صداقت کے باعث عوام کی سپورٹ سے مزید اُبھر کر آئے گا۔ مشہور قول ہے ! ”پارے کو جتنا دبائو وہ اتنا ہی اُچھل کے سامنے آتا ہے”۔ عمران عوام کی قبولیت سے ایک پارہ ہی ہے اور اسے کسی بھی ہتھکنڈے سے دبایا نہیں جا سکتا۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گرو ہے کہ نہیں!
٭٭٭