کرپٹ سیاستدانوں کیلئے حکومت کی عدلیہ پر قدغن(چیف جسٹس کے اختیارات محدود)

0
83

اسلام آباد(پاکستان نیوز) حکومت نے کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے فیصلوں میں کھلی چھٹی دینے اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کا راستہ صاف کرنے کے لیے عدلیہ پر قدغن لگا دی ہے، چیف جسٹس کے اختیارات کو محدودکرتے ہوئے سوموٹو لینے کا فیصلہ تین رکنی ججز کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے،حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کے حوالے سے تجویز کردہ پانچ ترامیم کے ساتھ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظور کر لیا ہے۔ منظور کردہ بل میں کی گئی پانچ ترامیم میں سے تین ترامیم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی جانب سے تجویز کی گئیں، جبکہ دو رکن اسمبلی محسن داوڑ کی جانب سے تجویز کی گئیں۔محسن داوڑ کی جانب سے تجویز کردہ تجویز کے مطابق حتمی فیصلہ یا آرڈر کے خلاف اپیل 30 روز کے اندر داخل ہو سکتی ہے۔ دوسری ترمیم کے مطابق 30 روز میں اپیل دائر کرنے کا حق متاثرہ اشخاص کو بھی دستیاب ہو گا جس کے خلاف ماضی میں آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کیس میں فیصلہ کیا گیا ہو۔واضح رہے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سو موٹو کیس میں آرٹیکل 184 کے تحت فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں انہیں تاحیات نااہل کیا گیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے اسی آرٹیکل کے تحت تا حیات نااہل کیا گیا تھا۔ یہ قانون نافذ ہونے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کی سزا ختم کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ کمیٹی کی تجویز کردہ ترامیم کے مطابق قانون کے نافذ العمل ہونے سے 30 دن قبل جتنے از خود نوٹسز کے فیصلوں پر اپیل کا حق مل جائے گا۔ دوسری تجویز کردہ ترمیم میں آئین کی تشریح سے متعلق کیسز میں بنچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘فرد واحد کے بجائے سپریم کورٹ کے ججز کو اختیارات دیے جا رہے ہیں۔ ایوان اپنا آئینی حق استعمال کر رہا ہے، ہم اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کر رہے۔ ”ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی نا اہلی پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ کیا نواز شریف کو اپیل کرنے کا حق حاصل تھا؟ ایک منتخب وزیر اعظم کو اس کے حق سے محروم کیا گیا۔ دو وزرائے اعظم کو نا اہل کیا گیا۔ ہم اس بل میں اپیل کا حق دے رہے ہیں۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ماضی میں افتخار چوہدری جیسا چیف جسٹس گزرا ہے جس نے عدالتی آمریت قائم کی تھی۔ ‘سوچنا ہو گا ملک میں پیدا ہونے والے بحران کا زمہ دار کون ہے؟ ہمارے جمہوری قدم کے جواب میں غیر جمہوری اقدام کیے گئے۔جمہوریت کی خاطر خاموش ہونا مناسب نہیں، قوم کو بتانا ہو گا ایسے حالات کیوں بنے۔ کبھی وزیراعظم کو آمر اور کبھی چیف جسٹس باہر اٹھا کر پھینکتا ہے، انہوں نے ماضی میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے بنائے گئے ڈیم فنڈ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘چیف جسٹس کے پاس ڈیم بنانے کی پاور کہاں سے آ گئی؟ عدلیہ نے بلیک میل کرتے ہوئے 19 ویں ترمیم پاس کروائی۔ ان اصلاحات سے عدلیہ مضبوط ہو گی۔’اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اس بل کی منظوری دی۔ چیئرمین چوہدری بشیر ورک کی زیر صدارت ہونے والی کمیٹی کے اجلاس کے آغاز میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد اعلی ترین عدالت میں شفاف کاروائی ہے۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 سے متعلق وزیر قانون نے کہا کہ یہ بل بار کونسلز اور شراکت داروں کا پرانا مطالبہ تھا جو آرٹیکل 184 تین کے بیدریغ استعمال کو روکنے سے متعلق تھا۔ پہلے اپیل کے حق سے افراد محروم تھے، اسے بل میں شامل کیا گیا ہے۔ اہم نوعیت کے کیسز کی چھ، چھ ماہ سماعت نہیں ہوتی سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں آئیں۔ وقت ہے کہ پارلیمان اب اس پر قانون سازی کرے۔چیئرمین کمیٹی نے بل کے آئین سے متصادم ہونے سے متعلق استفسار کیا۔ رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا ”ہم سب موجودہ صورت حال سے پریشان ہوئے۔ آئے دن از خود نوٹس ہوئے، اسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون کی ٹائمنگ سے متعلق سوال کیا جا رہا ہے۔ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سال 2007 سے آئین کے آرٹیکل 184 تین کا بیدریغ استعمال شروع ہوا۔ افتخار چوہدری کے بعد تین ججز نے از خود نوٹس لینے سے اجتناب کیا جس کے بعد ثاقب نثار نے بھی از خود نوٹس کا بے دریغ استعمال کیا۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ‘آواز اٹھی کہ ون مین شو نہیں ہونا چاہئے۔ حالیہ دنوں میں دو ججز کا بھی اس سے متعلق فیصلہ آیا ہے۔ کہا گیا کہ پارلیمان اس پر قانون لے کر آئیں۔ عدالت کی آزادی کی بات بار سے اٹھتی ہے جس کے دو گروپس نے اس بل کی تعریف کی، حامد خان نے بھی کہا کہ ‘بل وقت کی ضرورت تھی جس سے ادارے میں استحکام آئے گا۔ ابھی دو سال سے آپ کو دو سینئر ججز کسی بنچ میں نظر نہیں آئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here