پیری مریدی!!!

0
118
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے، ہمارے ہاں یہ جو پیری مریدی کا رواج ہے، اسکی (بنیادی) وجہ یہی ہے کہ کوئی اللہ کا نیک بندہ ہمیں برائی سے بچا کر نیکی کے راستے پر لگا دے۔۔ ایسے شخص کی صحبت میں رہو جہاں عقائد کی اصلاح ہو، حتی المقدور اعمال کی اصلاح ہو، کردار کی اصلاح ہو۔۔! (جبکہ) اب یہ رواج ہے کہ فلاں خانقاہ پہ جا بیٹا پیدا ہو گا، فلاں جگہ جا تو درد ٹھیک ہو جائے گا۔۔ خانقاہوں کو تو ایک جگہ رکھ دیں، جو خود اللہ کے نبی کو نہیں مانتے، جو خود اللہ کو نہیں مانتے،، انکو صحت مل رہی ہے، اولاد مل رہی ہے، پھر آپ نے کسی پیر سے جا کر لے لی تو کیا تیر مارا؟ یہ تو اسکا اپنا نظام ہے (جسمیں کسی پیر کا دخل نہیں)۔۔! پیر یا مرید ہونے کا مقصد یہ ہے کہ عقائد و اعمال میں اصلاح نصیب ہونے کی توفیق ارزاں ہو، نیکی پہ استقامت نصیب ہو۔۔ اور اگر یہ نہیں ہے تو خواہ مخواہ ایک پیر کا بوجھ سر پہ لادنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم جو بے دھڑک مرید کرتے ہیں، اگر ہمارا مقصد یہ ہو کہ زیادہ مرید ہو گئے تو زیادہ چندہ آئے گا، زیادہ پیسے ملیں گے، خواہ یہ (مریدین) جہنم میں جائیں یا جنت میں جائیں،، تو پھر ہمارا حشر بھی اللہ معاف کرے بہت برا ہو گا۔۔ ایسے پیر کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔۔ شیخ کے دل میں درد ہو اور درد بھی گہرائی میں ہو کہ اللہ مرید کی اصلاح فرما دے،، اور اسکے لئے کوشش بھی کرے، محنت کرے، زبانی سمجھائے، ساتھ عمل کرائے، اللہ کی یاد پختہ کرائے تاکہ اسکے عقائد درست ہوں، ممکن حد تک کوشش ضرور کرے۔۔! اب تو یہ رواج ہو گیا ہے کہ پیر مرتا ہے تو اسکے بیٹے مرید بانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔۔ جیسے ہم زمینداروں کے بیٹے زمین بانٹتے ہیں، کارخانہ داروں کے بیٹے کارخانے کے حصے بانٹتے ہیں۔۔ (ایسے ہی) پیر صاحب مرتے ہیں تو مرید بھی بانٹے جاتے ہیں کہ فلاں سے تم شیرینی لیا کرو اور فلاں سے میں لوں گا۔۔ یہ سب خرافات ہیں، انکا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔!! اولیاے کرام اللہ کی رحمت کے مظہر ہیں۔ اللہ کی رحمت ان کے قریب ہوتی ہے۔ ان نیکوں کے صدقے اللہ تعالی نے سو کے قاتل کی بخشش کردی۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے والے کی بخشش کردی حالانک وہ اللہ کے ڈکر کے لیے نئی آیا تھا بلکہ کسی دنیاوء غرض کی وجہ سے وہاں آیا تھا۔ یہ وہ چیز ہے جو لوگوں کو اولیا اللہ سے تعلق جوڑنے کا سبب ہے۔ ایک اور چیز جو لوگوں کو اولیاے اللہ کے پاس لاتی ہے کہ ان سے دعا کرواہیں تو اللہ تعالی لوگوں کی حاجتوں کو پورا کر دیتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگ ان ولیوں سے دعا کے لیے کہتے ہیں کہ بابا جی ہمارے لیے دعا کریں اللہ تعالی ہمارا فلاں کام کردے۔’ دعا ہر انسان کا حق ہے اور وہ اپنے رب سے دعا کر سکتا ہے کہ وہ رب تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو پھر یہ لوگ کیا سوچ کر ان اللہ کے ولیوں سے دعا کا کہتے ہیں؟ ان کا اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ نیک لوگ ہیں ان کی دعا جلدی قبول ہوتی ہیجبکہ ان کا اپنے بارے میں یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ گناہگار لوگ ہیں شاید ان کی دعا قبول نہی ہوگی۔ کیا ان کا یہ گمان کہ اولیاے اللہ کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے صحیح ہے؟ اس کا جواب حدیث پاک کے اس ٹکڑے میں موجود ہے۔ میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ( بخاری ومسند آحمد) پہلے حصے کی شرح کسی دوسرے مقام پر ہوچکی۔ عاجز اس کے آخری حصے کے متعلق بات کرے گا۔ اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اللہ تعالی اس حدیث قدسی میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میرا یہ محبوب بندہ مجھ سے سوال کرتا ہے یا دعا کرتا ہے تو میں اس کو قبول کرتا ہوں۔ یہ بشارت اللہ تعالی نے ان کو دے دی ہے۔ لوگ ان اہل اللہ کے پاس اپنی حاجات لے کر آتے ہیں اور ان سے دعا کے لیے عرض کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ مستجابات دعا ہوتے ہیں لوگوں کی مرادیں بھر آتی ہیں۔ اب فیصلہ آپ خود کریں کہ جو لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں ان سے دعاہیں کرواتے ہیں کیا وہ ناسمنجھ لوگ ہیں؟ اور جو لوگ ان اولیاے کو ناپسند کرتے ہیں ان کے پاس نہی آتے ان سے دعا کے لیے نہی کہتے کیا وہ اس آپروچ میں صحیح ہیں؟ اب دعا کی بھی دو جہتیں ہیں۔ ایک کسی کو کہ کر دعا کروانا اور دوسرا دعا کرنے والا خود کسی کے لیے دعا کرے ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ایک بندہ جو ان اولیاے اللہ کی خدمت کرتا ہیاور وہ اللہ کا ولی اس خدمت سے خوش ہوکر دعا کر دیتا ہے ایسی دعا قبولیت اور تاثیر میں بھی سریع ہوتی ہے بلمقابل اس دعا کہ جو تکلف سے کی جاے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے۔ ایک دن آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کا پانی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر ان کو دعا دی کہ اے رب عبد اللہ کو قرآن کی تحویل کا علم سکھا۔ اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ عبد اللہ بن عباس قرآن کے بہت بڑے مفسر بنے بلکہ آپ مفسرین کے جد امجد ہیں۔ لوگ اہل اللہ کی خدمت اسی لالچ میں کرتے ہیں کہ ناجانے کب یہ خوش ہوجاہیں اور میرے لیے دعا کردیں ان کی دنیا اور آخرت سنور جاے گی۔ اب آپ سوچیں وہ لوگ جو ان کی خدمت کرتے ہیں کیا وہ پیر پرستی کر رہے ہوتے ہیں؟ سبحان اللہ! ان جیسا سمنجھدار کون ہے بس سمنجھنے کی بات ہے۔ جن کو سمنجھ آگئی وہ سمجھ گئے جن کو نہی آی وہ اسی گمان میں ہیں کہ وہ پڑے پڑھے لکھے ہیں۔ بحر حال کسی کی بھی دعا لینا ایک اعجاز ہے ایک نصیب کی بات ہے بہتر ہو کہ کام ایسے کیئے جائیں زبان سے نہیں دعا دل سے نکلے بس اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا ہو آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here