آج کل اس تیز ترین دور میں جو چیز ہم پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں وہ مومن کا عقیدہ ہے۔ اور عقیدہ کی پہلی سیڑھی اپنے پیدا کرنے والے کا رب ہونا ہے جسے عرف عام میں پالنے والا کہتے ہیں ہم دنیاوی اسباب پر اس قدر بھروسہ کرتے ہیں کہ رزق دینے والا جو حقیقی رب ہے۔ اس کی پہان تک کھوتے جارہے ہیں، میں ایک مرتبہ ایک محفل میں جس میں ملک کا صدر بھی مدعو تھا۔ مجھے امامت کرنے کے لئے بلایا گیا ایک لمحہ قبل مجھ سے ایک نامور صاحب علم نے پوچھا قمر صاحب وضو کرنے کے لئے جگہ کہاں ہے۔ میں نے ایک طرف اشارہ کیا انہوں نے بازو کھولے کہنیوں سے قمیض اوپر کی اور باتھ روم کی طرف جانے لگے اُسی لمحے صدر محترم داخل ہوئے اور سیدھا میرے پیچھے مصلے پر کھڑے ہوگئے۔ وہ صاحب جو کچھ دیر پہلے بازو کھول کر وضو کے لئے جارہے تھے بازو نیچے کئے۔ اور صدر محترم کے ساتھ بے وضو کھڑے ہوگئے۔ تاکہ میں حاکم وقت کی نظروں کے سامنے ر ہیں۔ دکھ تو انسان کو ہوتے ہیں مجھے اس عمل کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ اگر صاحبان علم وفکر اس قدر اپنے رب سے بیگانے ہوجائیں کہ دنیاوی بادشاہ پر تو یقین ہو کہ مجھے عہدہ مل جائے گا۔ میری تنخواہ زیادہ ہوجائے گی میرا کھانا پینا شاہی ہوجائے گا۔ اور وہ جو حقیقی رب ہے اس کو بھلا دینا پتہ نہیں مجھے روٹی رزق ملے نہ ملے۔ کم ازکم اس بادشاہ سے تو مل جائے گا یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے میرے سینے میں بڑے نامور لوگوں کی کہانیاں دفن ہیں کہ ہم اپنے حقیقی رب سے کس قدر دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہارون الرشید ایک مرتبہ حج سے واپس آرہا تھا کوفے سے گزر ہوا۔ حضرت بہلول رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا بچے ان کو تنگ کر رہے تھے جیسے ہی بادشاہ کی سواری رکی۔ بچے ادھر اُدھر ہوگئے۔ ہارون الرشید سواری سے نیچے اترے۔ اور کہا بہلول کیا کہنا چاہتے ہو۔ آپ نے فرمایا مجھ سے ایمن بن فائل نے اور فائل سے قدامہ بن عامری نے روایت کیا کہتے ہیں رسول اللہ منیٰ میں ایک عام سے اونٹ پر سوار تھے۔ پٹھا ہوا کجا وہ تھا۔ ہٹو بچو کا کوئی مشور نہ تھا اور نہ ہی مار دھاڑ اے ہارون الرشید تیرے لئے اس کروفر سے کہیں بہتر ہے کہ تو عاجزی اختیار کرے۔ ہارون رشید کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہا بہلول کوئی اور نصیحت کرو۔ فرمایا اگر اللہ مال ودولت دے تو راہ مولا میں خرچ کر دو حسن وجمال دے تو اپنے آپ کو حرام کاری سے بچائو۔ تو آپ کا نام ابرار کی فہرست میں لکھ دیا جائے گا ہارون الرشید نے کہا۔بہلول میں آپ کے لئے کوئی وظیفہ مقرر کردوں۔ بہلول نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا ہارون میں اور تم دونوں اللہ کے بندے ہیں یہ تم نے کیسے سوچ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی سوچ لیا ہے اور مجھے بھلا دیا ہے۔ ہارون الرشید لاجواب ہوگیا۔ سواری پر سوار ہوئے بغیر چل پڑا۔ سو اے میرے بھولے بھالے مسلمان بھائیوں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے روٹی رزق کی زیادتی کے لئے اللہ کے غیروں کے دروازوں پر سر تو جھکائیں۔ اور حقیقی رب سے منہ موڑ لیں۔ یہ سب عارضی سہارے ہیں آج یہ موج میں ہیں کل قید خانے میں ہوں گے۔ اگر ہمارا کوئی حقیقی سہارا ہے تو وہ واحد اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ اس کو مانو تو بھی رزق دیتا ہے اور نہ مانو تو بھی رزاق دیتا ہے۔
٭٭٭