زراعت میں ترقی اور زرعی اجناس میں خود کفیل ہو کر پاکستان خود کفیل ہوسکتا ہے۔ روس یوکرین کی جنگ میں گندم سمیت غذائی اشیاء خوردنوش کی قلت سے آنے والے وقت میں عالمی سطح پر خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں قحط سالی کا خطرہ بڑھ گیا وہ غریب ممالک جن کی آبادی بھی زیادہ ہے یہاں خوراک ہی وجدئے خانہ جنگی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ خطرہ کچھ عرصہ سے بڑھتا چلا گیا ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے فقطہ گندم کی کھپت اور پیداوار میں پانچ کروڑ میٹرک ٹن کا فرق ہے۔ یعنی گندم کی کھپت تیس کروڑ میٹرک ٹن جبکہ پیداوار فقط25 کروڑ میٹرک ٹن ہے۔ زراعت کے شعبہ پر عدم توجہی اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس قلت کے اسباب ہیں لیکن گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی سطح پر ناقص اسٹوریج میں15.20فیصد گندم ضائع ہوتی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ گندم اور آٹے کی سرکاری نرخ کے مقرری کا عمل بھی افسر شاہی کی بدعنوانی اور سرخ فیتہ کے نظر ہوتا ہے۔ جس سے دلبرداشتہ ہوکر کاشت کیلئے گندم کی کاشت ایک منافع بخش عمل نہیں رہتی۔ گندم کی کاشت کے اہم ترین عناصر کھاد اور بیع ہو ہیں لیکن وفاقی سطح پر کھاد کی قیمتوں پر بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا ہے۔ زراعت کے شعبہ میں تحقیق کیلئے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کائوسل(PARC) کئی برسوں سے معرض وجود میں ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی تین بڑی زرعی یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں۔ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی سب سے بڑی اور عالمی سطح کی یونیورسٹی ہے دوسرے نمبر پر سندھ ایگریکلچرل یونیورسٹی ٹنڈو جام آتی ہے۔ جو ایک لمبے عرصہ تک محض زرعی کالج کی صورت میں کام کرتا رہی لیکن1977ء میں ایسے یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ اور تیسرے نمبر پر بہائو الدین ذکریا یونیورسٹی آتی ہے۔ جس میں ایگریکلچرل فکلٹی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جن میں اکثریت کا کام کھیتی باڑی ہے اور ان علاقوں میں بسنے والے لوگ زراعت سے منسلک کام کام کرتے ہیں مثال کے طور پر مال مویشی پالنا، زرعی مزدوی(دہاڑی پر) مرغی خانہ، آبپاشی کے نظام میں ملازمت وغیرہ وغیرہ پاکستان میں زرعی تحقیق کی ہیں لیکن یہ تو بھی اور بجٹ کی کمی وجہ سے ان کی کارکردگی اور نتائج غیر تسلی بخش ہیں۔ حالانکہ41یونیورسٹیاں کالج اور انسٹیٹیوٹ ایسے ہیں جن میں زرعی ڈیپارٹمنٹ یا فیکلئیز بھی موجود ہیں۔ اگر یہ سارے ادارے اور10-15زرعی تحقیقی ادارے اگر مل جل کر کام کریں تو پاکستان کی زرخیز مٹی سونا اگل سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ گندم کی کھپت اور ضروریات30کروڑ میٹرک ٹن ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور عالمی ضروریات کے مدنظر پاکستان کو پچاس کروڑ ٹن کی گندم کا پیداواری ہدف بنانا چاہئے جس پر ان تمام تحقیقی اداروں کو یکجا کرکے مختلف زرعی تعلیمی اداروں سے ذہین طلبا اور طالبات کے تعاون سے بہترین بیج(SEEDS) اور کھاد بنا کر پاکستان میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہے کہ وزیراعظم پاکستان اس سارے کام کا بیڑہ خود اٹھائیں کم ازکم تین سال اس کام کا جائزہ لیں۔ گندم کے علاوہ بہترین چاول کی فصل بھی پاکستان میں ہوتی ہے دالوں کی کاشت کیلئے بھی ہماری زمین بہترین ہے۔ ہمارے آم ساری دنیا میں مقبول ہیں ان کو بھی تجارتی انداز سے ایکسپورٹ(برآمد) کیا جاسکتا ہے۔ 1۔ وفاقی سطح پر زرعی زمین کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال پر فوری اور مکمل پابندی لگائی جائے۔
2۔ ہر صوبے میں چھوٹے چھوٹے کھاد کے کارخانے بنا کر سستے داموں میں کھاد مقامی کاشتکاروں کو مہیا کی جائے۔
3۔ آب پاشی کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے ساتھ آب رسانی کیلئے پکے نالے بنائے جائیں تاکہ پانی ضائع نہ ہو اور زمین سیم وتھور سے بچی رہی۔
4۔ سب سے اہم اور فوری کام اشیاء خوردونوش بشمول گندم وغیرہ کیلئے گوداموں کو چلانے کا معیار مقرر کیا جائے جس میں مقرر کردہ ٹمپریچر پر رکھنا اور نمی سے بچانا نہایت اہم ہے۔موجودہ حالات میں بیس سے پچیس فیصد اجناس ناکارہ گوداموں میں ضائع ہو رہی ہیں۔ جس کے منفی اثرات ان اجناس کی کمی اور قیمتوں پر بھی پڑتے ہیں۔
پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے۔ ہمارے نوجوان ذہانت میں کسی سے کم نہیں اس ملک میں پہاڑ دریا زرخیز سر سبز زمین میں محتنی کسان اور مزدور بہترین ماہرین ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے اس ملک کا مستقبل روشن ہے اور ہوسکتا ہے سب ملکر اس ملک کو گل و گلزار بنائیں پھر سے ہم اتحاد یقین محکم اور ایمانداری سے محنت کریں تو اس ملک کو دنیا کے بہترین ملکوں میں شامل کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭