فیض حمید کو طالبان کی فتح پر دورہ افغانستان لے ڈوبا

0
15

نیویارک (پاکستان نیوز) سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید کو ٹاپ سٹی کیس میں تحقیقات کے بعد فوجی تحویل میں لے کر کوٹ مارشل کا آغاز کر دیا گیا ہے ، لیکن ان کی گرفتاری کی وجہ صرف ٹاپ سٹی کیس نہیں بلکہ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل اور بعد بہت سی غیرقانونی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں ، خاص طور پر جب وہ آئی ایس آئی چیف تھے تو طالبان کی افغانستان میں فتح کے اگلے ہی دن رات گئے انھوں نے کابل میں لینڈنگ کی اور صبح وہاں ہوٹل میں کافی پیتے ان کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونے پر بھارت اور امریکہ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا جبکہ ملک کے اندر وہ وزیراعظم عمران خان کیساتھ مل کر باجوہ کا تختہ الٹنے کی تیاریاں کر رہے تھے ، امریکہ اور بھارت کے دبائو کے پیش نظر سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے ہٹا کر کورکمانڈر پشاور تعینات کر دیا تھا ۔اب بھی فیض حمید کو طالبان کی فتح کا جشن منانے کی سزا دی جا رہی ہے ،فیض حمید گزشتہ چند دنوں سے فوجی انقلاب کے خواب بھی دیکھ رہے تھے ، وہ پاکستان کے حاضر ڈیوٹی اور ریٹائرڈ فوجیوں کو ساتھ ملا کر ملک میں انقلاب لانے کی سرگرمیوں میں بھی سرفہرست تھے ۔ ذرائع کے مطابق فیض حمید پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کو مسلسل ہدایات دے رہے تھے جس سے سیاسی رہنما کافی پریشان تھے اور انھوں نے عمران خان سے ان کی شکایت بھی کی تھی۔الزامات ثابت ہونے پرسابق آئی ایس آئی چیف کو کم سے کم 8سے 10سال قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملہ پر تحقیقات ہو رہی تھیں لیکن اب پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متعدد مواقع پر پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی، لہٰذا ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور ملٹری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔لیفٹننٹ جنرل فیض حمید پاکستان کی تاریخ کے وہ لیفٹننٹ جنرل تھے جو اپنے وقت کے وزیراعظم کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے لیکن ان کا نام مختلف مواقع پر سامنے آیا۔فیض آباد کے مقام پر ٹی ایل پی کا دھرنا ہو، یا پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے فیض حمید کا نام لیکر دباؤ ڈالنے کا الزام، پانامہ کیس میں ججز کو کنٹرول کرنے کا الزام ہو یا پھر وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا الزام ، ہر معاملے میں فیض حمید کا نام سامنے آتا رہا۔ٹاپ سٹی کیس میں سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں ان کی درخواست نمٹا دی گئی تھی اور عدالت نے حکم دیا تھا کہ وہ اس بارے میں موجود ریمڈی یعنی وزارت دفاع کو درخواست دیں تو وہ یہ معاملہ دیکھ سکتے ہیں جس میں اس وقت کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس معاملے پر درخواست کے بعد وزارت دفاع لازماً غور کرے گی۔اس پر کنور معیز نے 12 مئی کو پیش آنے والے واقعہ کے ساتھ ساتھ اس کے بعد پیش آنے والے واقعات پر بھی بات کی۔ جنرل فیض حمید پر اگر صرف مالی بے ضابطگیوں کا الزام ثابت ہوجائے تو انہیں 8 سے 10 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں، لہذا ان پر کون سے الزامات ہیں اس بارے میں کورٹ مارشل کی دیگر تفصیلات سامنے آنے پر ہی پتہ چل سکے گا۔سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج میں خود احتسابی کا عمل ہے اور سینئر افسران کے خلاف انکوائری پہلی بار نہیں ہو رہی۔ ماضی قریب میں لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال کو کورٹ مارشل کے بعد سزا سنائی گئی تھی، جب کہ این ایل سی اسکینڈل میں ملوث ہونے پر سینئر افسران کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ لیفٹننٹ جنرل عبید کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کی گئی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here