واشنگٹن (پاکستان نیوز) پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں برسوں بعد اعتماد کی فضا بحال ہونے لگی ہے ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورہ امریکہ سے دونوں ممالک میں تعلقات ایک نئی سطح پر پہنچ گئے ہیں ، واشنگٹن میں آرمی چیف کا پرجوش استقبال مشرق وسطیٰ کے بحران کے درمیان تزویراتی بحالی کی طرف اشارہ کرتا ہے، سفارتی گہرے جمود میں برسوں کے بعد، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر برف تیزی سے پگھلتی نظر آتی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے آرمی چیف، فیلڈ مارشل عاصم منیر کا پرجوش استقبال، ممکنہ بڑی بحالی کا اشارہ دیتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک بہترین شخص ہیں، پاکستان اور بھارت کو کہا کہ اگر جنگ جاری رکھو گے تو تجارت نہیں ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک شاندار فتح حاصل ہوئی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر سید عاصم منیر کی تعریف کی ،ر ایک بہترین شخص ہیں۔فیلڈ مارشل عاصم منیر سے میری ملاقات ہوئی، ان سے بہت متاثر ہوا ہوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کرایا۔ پاکستان اور بھارت کو بھی کہا کہ تجارت کریں ،پاکستان اور بھارت کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر نیوکلیئر حملہ کرسکتے تھے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ فون کالز کرکے رکوائی۔ میں نے کہا کہ اگر جنگ جاری رکھو گے تو تجارت نہیں ہوگی۔دونوں ممالک نے کہا کہ ہمیں امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا ہے۔ امن کیلئے جو ہوسکتا تھا وہ ہم نے کیا۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا،ایرانی لوگ بہت اچھے تاجر ہیں، اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع دوبارہ شروع ہوسکتا ہے، اسرائیل اور ایران دونوں نے شدید جنگ لڑی ، چین کی مرضی ہے کہ وہ امریکا سے تیل خریدے یا ایران سے خریدے۔ایران کو اگر تعمیر نو کیلئے پیسوں کی ضرورت ہے تو چین کو ان سے تیل خریدنا چاہیے۔ایران کے ساتھ اگلے ہفتے بات ہوسکتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس اور یوکرین کی جنگ بند کرانا بہت مشکل کام ہے۔ مزید برآں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے جوہری تنصیبات بحال کرنے کی کوشش کی تو دوبارہ حملہ کریں گے۔ دی ہیگ میں نیٹو سمٹ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایرانی میزائلوں نے عمارتوں کو تباہ کردیا، آخری 2 دنوں میں اسرائیل کو بہت بری مار پڑی، ایران اور اسرائیل دونوں نے تسلیم کیا کہ بس بہت ہو گیا اور جنگ بندی کو موقع دینا چاہیئے، میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے واپس گئے جس کے بعد سے ایران اسرائیل جنگ بندی پر بہت اچھے طریقے سے عمل ہو رہا ہے، جنگ بندی کی چند خلاف ورزیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر فریقین پیچھے ہٹے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔صدر ٹرمپ ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ایران پر حملے میں ہمیں ایک تاریخی کامیابی ملی ہے، ہم نے تقریباً 30 منزل نیچے بنائی گئی تنصیبات کو تباہ کیا، فردو جوہری مرکز اب مکمل تباہ ہو چکا ہے، حملہ کرکے ہم ایران کے جوہری پروگرام کو دہائیوں پیچھے لے گئے ہیں، ایران کے لیے اب جوہری ہتھیار بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے، اگر ایران نے تنصیبات کی بحالی کی کوشش کی تو ‘ہم دوبارہ حملہ کریں گے کیوں کہ ایران کو یورینیئم افزودگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران ایک بہترین ملک ہے اور ایرانی قوم بہترین لوگ ہیں لیکن ایران نیوکلیئر ہتھیار نہیں رکھ پائے گا، ایران کو پتا تھا ہم حملہ کرنے والے ہیں، امریکہ نے اپنی فوجی طاقت سے ناصرف اپنا مفاد بلکہ عالمی امن کا تحفظ بھی کیا ہے، اب ان کا ملک بچ گیا ہے، گزشتہ روز روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی ایران کے معاملے پر مدد کی پیشکش کی تھی اور خطے میں امن کے لیے امریکہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا کیوں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، اسی لیے غزہ کے معاملے پر بھی بڑی پیشرفت ہو رہی ہے اور غزہ کا مسئلہ اب حل ہونے کے قریب ہے۔یاد رہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ایک فون کال میں، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر کی دعوت کو سختی سے مسترد کر دیا کہ انہوں نے مئی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار روزہ تنازعہ میں ذاتی طور پر امن کی ثالثی کی تھی۔اگلے دن، مودی کو ایک “شاندار آدمی” کہتے ہوئے، ٹرمپ نے مختصر لیکن شدید جنگ کو روکنے میں منیر کو “انتہائی بااثر” قرار دیا اور کہا کہ “میں پاکستان سے پیار کرتا ہوں،” ٹرمپ نے دہرانے سے پہلے کہا: “میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ روک دی تھی۔ہندوستان کے خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے کہا کہ فون کال میں مودی نے “بالکل واضح” کر دیا، کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کی درخواست کے بعد ہی دشمنی ختم ہوئی، اور یہ کہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی نہیں ہوئی۔ مصری نے کہا بھارت نے ماضی میں ثالثی کو قبول نہیں کیا اور نہ کبھی کرے گا۔منیر کا واشنگٹن میں ریڈ کارپٹ استقبال اور یو ایس سنٹرل کمان کی جانب سے بہت زیادہ تعریف ایک اسٹریٹجک ری کیلیبریشن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ای کریلا نے حال ہی میں پاکستان کو ایک “غیر معمولی” انسداد دہشت گردی کا ساتھی قرار دیا، جس نے 2021 کے کابل ہوائی اڈے پر ایبی گیٹ بم دھماکے کے پیچھے داعش کے صوبہ خراسان کے مبینہ منصوبہ ساز کو پکڑنے میں مدد کرنے میں اسلام آباد کے کردار کا حوالہ دیا، یہ حملہ جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوئے۔منیر کے پانچ روزہ امریکی دورے میں پینٹاگون، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور فلوریڈا میں سینٹرل کمانڈ ہیڈ کوارٹر میں ملاقاتیں شامل ہیں۔ ایک پاکستانی جنرل کے لیے ایسی رسائی غیر معمولی ہے۔









