محترم قارئین! اُسوہ حضورۖ معیار انسانیت ہے زمانے میں کتنے ہی انقلاب آئے اور وقت کے صحرائوں میں گم ہوگئے کتنے ہی مصلحین صفحہ ہستی پر اُبھرے اور تاریخ کے نہاں خانوں میں کھو گئے۔ کتنے ہی منشور اور نظام انسانیت کی سرفرازی کے دعویدار بن کر طلوع ہوئے مگر سرابوں کے گردبار میں ان کے غروب ہونے کا منظر نہایت ہی عبرتناک تھا۔ یہ شرف صرف آقائے عالی مرتبت حضور نبی کریمۖ کے لازوال اسوہ وکردار ہی کو حاصل ہے کہ جس کی ابدیت مسلمہ اور جامعیت عظمت انسانیت کا سب سے بڑا معیار ہے اس لئے ہر صاحب بصیرت کی فکر اس اعتراف پر مجبور ہے کہ پیغام صبح زندگی اسوہ حضور کاہے تازگی ہی نازگی اسوہ حضور کا دنیا کی آرزو یہی، عقبیٰ کی جستجو یہی۔ عظمت رہ حیات کی اسوہ حضور کا حضور نبی کریم ۖ کا اسوہ انسانیت کا معیار کیوں نہ ہو؟ آپۖ کی تشریف آوری کے وقت انسانیت تھی کہاں؟ انسانی ہاتھوں کے تراشیدہ اصنام کی پرستش ہو رہی تھی، بچیاں زندہ زمین میں دفن کی جارہی تھیں شراب، جوا اور بے حیائی کو تہذیب اور قتل و غارت گری کو تمدن کا نام دیا گیا تھا صرف جنریرہ نمائے عرب ہی نہیں بلکہ چودہ صدیوں پہلے کے ایران، مصر، ہند اور چین میں بھی مصلحت کی سولی پر لٹکتی انسانیت کا نوحہ سننے والے کان بہرے ہوچکے تھے ایسے پُرآشوب دور میں فاران کی چوٹیوں سے ابھرنے والے ماہتاب نبوت کی کرنوں نے انسانیت کو حیات نو بخشی میرے آقاۖ نے غمزدوں کو زندگی کا شعور دیا بے بسوں کو اوپر اٹھایا اور زمانے بھر کا مولٰی کردیا۔ زندہ دفن کی جانے والی بچیوں کا دریدہ دامن باوقار زندگی کے موتیوں سے بھر دیا ماں باپ کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ غلاموں کو شوکت کسرائی اور مجبوروں کو عظمت دارائی بخش دی۔ انسانی مظاہر کی پرستش کرنے والوں کو انوار توحید سے آشنا کردیا۔ شیطانیت کا قصر ہلاکت زمین بوس ہوگیا اور چمنستان انسانیت پر بہار آگئی اس چمنستان انسانیت کو حضورۖ کا نم ملا یہ اس اُمی لقب مگر آقائے کل دانائے سُبل کا فیضان تھا جس کی سیرت آیات کلام ربانی میں ڈھل کر قرآن ناطق کا روپ اختیار کر چکی تھی۔ جو صادق بھی تھا اور امین بھی، جو ملک کا بہترین شہری بھی تھا اور کشور اسلام کا تاریخ ساز حکمران بھی، جو سالار افواج بھی تھا اور مقنین اعظم بھی، جو شارخ قرآن بھی تھا اور شارع اسلام بھی، جو قاضی القضاة بھی تھا اور معیشت کے عقدے سلجھانے والا تاجر بھی، جو مسجد کی چٹائی پر بیٹھتا تھا مگر ماضی حال اور مستقبل تینوں زمانوں کی خبریں جانتا تھا اور گرفت رکھتا تھا جو بقدکان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ کی تفسیر تھا۔ ہاں وہی جو انک لعلی خلق عظیم کی تنویر تھا۔ ہاں وہی جو وماینطق عن الھویٰ وان ھوالاوحی یوحیٰ کی تصویر تھا جو تلوار کی نوک سے نہیں بلکہ الفاظ کی تاثیر سے دلوں پر حکومت کرتا تھا جس کے کردادر کی عظمتوں کو دیکھ کر اغیار بھی اس کی توصیف میں رطب لسان ہوگئے کہ انسانیت کا دل نشین معیار آپ ہیں۔ دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں۔
ہر دور کے مصلحین کے مقام ومرتبہ کا تعین کرنے کے لئے عظمت انسانیت کے معیار کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ مگر میرے حضورۖ کا اسوہ لازوال اس بلندی کو چھو رہا ہے کہ جہاں انسانی ذہنوں کے تخلیق کردہ تمام معیار دم توڑ جاتے ہیں اور آپ کے سیرت و کردار کے آئینے میں عظمت انسانیت کا بے مثال معیار وجود میں آتا ہے۔ جس کے اول بھی آپ ہیں اور آخر بھی آپ ہیں نبی پاکۖ کے عدل وانصاف کا یہ عالم تھا کہ امیر خاتون کی چوری کی سزا معاف کروانے کے لئے آنے والوں کو یہ کہہ کر لاجواب کردیتے ہیں کہ ”اگر محمدۖ کی بیٹی” بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی قلم کر دیتا” فقیر نے بیٹی کا نام ادباً چھوڑ دیا ہے اور فقیر محمد لیاقت علی رضوی کو حضور اعلیٰ حضرت، محدث اعظم پاکستان، شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم اور قائد ملت اسلامیہ صاحبزادہ قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زید شرفہ کی طرف سے اس حدیث مبارکہ کو نام کے بغیر ذکر کرنے کا فیض ملا ہے کیوں نام لینا مقصود نہیں، مقصود تو یہ ہے کہ نبی کریمۖ کے عدل وانصاف کی انتہاء کو بیان کرنا ہے وہ اس طرح بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ انسانی حقوق کی پاس داری کا یہ عالم ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر جو لفظ بھی نہ سے نکلا وہ تاریخ کا اعزاز بن گیا اس خطبہ عالیہ نے ”نیو اسلامک ورلڈ آرڈر” کی بنیاد رکھی۔ رحمت وعظمت کی معراج عظمیٰ ہے۔ کہ جب بھی تلوار اٹھائی مظلوم کی حمایت میں اٹھائی۔ اور پھر چشم فلک اس ایمان آفرین لمحے کو کیسے فراموش کر سکتی ہے فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ”لا تشریب علیکم الیوم” فرماتے ہوئے تمام دشمنوں کو اپنے سایہ رحمت میں چھپا لیا غیر مسلم دانشور مائیکل ایچ ہارٹ اپنی کتاب ” دی ہینڈرڈ” میں آپ کے اسم گرامی کی منتخب ترین شخصیات میں اولین مقام دیتے ہوئے اقرار کرتا ہے کہ آپ کا کردار ہی آپ کی عظمت کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپۖ کے اسوہ حسنہ کو صحیح طریقہ سے اپنانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے