لکھاری غیر جانبدار ہوتا ہے،کالم نویسی اگر صحافت کا حصہ ہے تو ہم اور بھی غیر جانبداری کو اصول بنائیں گے ،میرے استاد اور کراچی سے نکلنے والے انگریزی روزنامہTHE SUNکے ایڈیٹر شمیم احمد نے صحافت اور پیشے سے متعلق ضروریات کی یوں تعریف کی۔ایک صحافی کی ذمہ داری معاشرے میں پھیلی اچھی اور بری بات کو جوں کا توں پیش کرنے کی ہے۔جذبات سے بالاتر ہوکر”عبدل حمید چھاپرہ اس کے گواہ ہیں جن کے ساتھ ہمارا کچھ وقت گزار تھا۔ یہ1980کی بات ہے اور ہم نے لکھنا شروع کیا تو اپنی ذاتی ترجیحات کو بالاتر رکھ کر لکھا۔کسی پر تنقید سے پہلے سوچا کہ یہ برُی باتیں ہم میں تو نہیں اور لکھا تو قوم اور ملک کی بہتری کے لئے لکھا کسی پارٹی سے وابستگی نہیں رہی۔عمران خان کو پسند کیا تو صرف اس لئے کہ موروثی سیاست ختم ہونے کی اُمید تھی کہ پچھلے دو سیاست دانوں نے اپنی ذات کیلئے سب کچھ کیا ۔اپنے ذاتی فائدے کو ترجیح دی۔اس سے پہلے بھٹو کا ساتھ دیا کہ ان سے بہت اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ بھی وڈیرہ شاہی کی زد میں آگئے۔انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ1984میں لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے جن میں مجیب الرحمن،شاہ فیصل، سادات، عرافات،قذاتی شامل تھے۔شاہ فیصل نے اعلان کیا کہ ہم تیل کو مغرب کی جارحیت کیخلاف استعمال کرینگے۔مذکورہ بالا تمام رہنما امریکہ سے آملا(DICTATION)لینے کے حق میں نہیں تھے۔یہ ان کی مزاحمت تھی جس کے نتیجے میں مندرجہ بالا چھ رہنما غیر قدرتی موت کا شکار بنے یہ عجب اتفاق تھا۔یہ وہ وقت تھا جب بھی کوئی لیڈر سر اُٹھاتا تھا ،اس کا انجام تحریر ہوجاتا تھا اس سے پہلے جمہوری اقدار کا دعویٰ کرنے والے مغربی ممالک جمہوری حکومت کو راتوں رات ختم کر دیتے تھے۔ایران کا مصدق اور الجیریا کی انتخاب کے نتیجہ میں آنے والی حکومت کو ملٹری ایکشن سے ختم کر دیا گیا۔مغرب کا یہ وطیرہ رہا کہ جو انکی پالیسیوں کے خلاف اُبھرا وہ طاقت کے ذریعے دبا دیا گیا۔امریکہ کی بیرونی پالیسی اس قدر ناکارہ رہی کہ وہ دنیا میں امن کی بجائے افراتفری کی بنیاد بنے جہاں ان کا فائدہ مارشل لاء یا آمریت میں ہوا اسے اپنایا اور جہاں جمہوری حکومت ان کے اشاروں پر چلی وہ ان کے بنے پاکستان میں ایوب خان، ضیاء الحق، اور پرویز مشرف نے وہ کیا جو یہ چاہتے تھے اور آج بھی یہ ہی ہورہا ہے۔باجوہ صاحب کو21توپوں کی سلامی دے کر امریکہ نے بہت کچھ حاصل کیا ہے دوستی اچھی چیز ہے لیکن چاپلوسی سے پاک ہونی چاہئے۔1984ء کی اسلامی کانفرنس نے بھٹو کو نشانے پر لے لیا تھا،اسے ضیاء الحق کے ذریعے پھانسی پر چڑھوا دیا تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔سائوتھ امریکہ کے ہر ملک میں انکا عمل دخل رہا۔نکاراگوا کی جگہ پاناما کو کنال کے لئے فیصلہ دیا اور نتیجہ میں وہاں باغی تنظیم نے جنم دیا۔چی گوارا نے مزاحمت کی اور اس کا صفایا کر دیا گیا۔آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مغرب نے کیا کب کسے کیا ؟تاریخ آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مغرب نے کیا کب کسے کیا تاریخ آپ کے ہاتھ میں ہے۔روس کے بکھرنے کے بعد امریکہ کو ضرورت نہ تھی کہ نفرت کی سیاست کھیلتا لیکن یہاں سیاست میں بھانت بھانت کے لوگ ہیںاور ان پر سوار اسرائیلی لابی ہے جو امریکہ کی بیرونی پالیسی کو بنائی بگاڑتی ہے کہ95فیصد پینیٹرز اور کانگریس کے ارکان ان کے آگے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیںاور امریکی عوام کے مفاد سے زیادہ وہ اسرائیل کے بے جا اور ظالمانہ مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ میڈیا پر ان کا پورا کنٹرول ہے اور انتخابات میں ان کی خوشنودی ضروری ہے۔کہ اگر انہیں اپنی بیوی کو طلاق دینی پڑے تو دے دینگے۔
حالیہ11روزہ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری کے نتیجہ میں سوائے برنی بینڈرس کے اور دو مسلم کانگریس وومین کے کسی نے بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی۔نیویارک سٹی کے میئر کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اکثریت نے طوطے کی طرح بولنا شروع کیا۔اور ایک ہی بات کہی ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔اب یہ لطیفہ بن چکا ہے کہ طاقت ور ممالک اسرائیل کے ساتھ اور تیسری دنیا کے حکمران فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔وہ عرصہ سے کھڑے ہیں حالیہ اسرائیلی بمباری سے غزہ میں بڑی بڑی عمارتیں اور رہائشی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
معصوم، بچوں،عورتوں جوانوں کو بغیر کسی وجہ کے مار دیا گیا لیکن مشرق وسطیٰ اور سعودی عربیہ خاموش تماشائی بنے رہے یہ بھی نہ کہہ سکے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے اگر بمباری بند نہ کی گئی۔دنیا بھر میں احتجاج ہوئے اور اقوام متحدہ کا اجلاس پہلے تو ملتوی کیا گیا پھر بغیر کسی نتائج کے ختم کر دیا گیا۔ادھرOICمتحدہ اسلامی تنظیم جس کے58مسلم ممالک ممبر ہیں اٹھک بیٹھک لگا کر گھروں کو چلے گئے جس میں روس اور تھائی لینڈ بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے،چین بھی خاموش رہا۔سکیورٹی کونسل بھی اسرائیل کے قبضے میں رہی کہ وہاں سے کوئی حرکت نہیں ہوئی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی کے ساتھ مل کر جوشیلی تقریر کر ڈالی بالکل بے اثر یہ معاملہ کشمیر سے بھی زیادہ سنگین بنا رہا ہے۔اس کی ابتداء بھی اُردن میں فلسطینیوں کو مار کر ہمارے بہت ہی مسلمان ضیاء الحق نے بحیثیت بریگیڈیئر کے کی تھی۔اسرائیل ہمیشہ سے ہی حزب اللہ پارٹی کو دہشت گرد جماعت کہتا چلاآیا ہے لیکن وہ ان سے فلسطینی علاقوں کو چھین کر فلسطینیوں کو انکا حق نہیں دینا چاہتا، پچھلے کئی سالوں سے انکی زمینوں پر قبضہ کرکے عمارتیں کھڑی کر رہا ہے اور اب دو ملکوں کا نظریہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔دنیا بھر میں ہر چند اسرائیل کے خلاف نفرتیں سانپ کی طرح پھن اٹھائے کھڑی ہیںلیکن کاٹنے کی سے معذور ہیں۔اسرائیل ہماری مراد نیتن یاہو سے ہے بھول چکا ہے کہ انجام کیا ہوگا۔روم ایک دن میں نہیں بنا تھا اور بقول قابل اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہم سمجھتے ہیں اسرائیل امریکہ کو تیسری جنگ عظیم کے لئے اکسا رہا ہے تاکہ دنیا پر قبضہ کرسکے، قبضہ ابھی بھی ہے لیکن ظاہری طور سے نہیں۔
٭٭٭